کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 583
’’أشھد أن محمداً رسول اللّٰہ إلی کافۃ الناس والجن‘‘۔
گونگے کا اشارہ کرنا نطق کے قائم مقام ہے۔ غرض کہ مذکورہ بالا امور کے بغیر اسلام حاصل نہیں ہوتا۔ جیسے یہ کہنا: ’’آمنت‘‘ یا یہ کہنا: ’’آمنت بالذي لا إلٰہ غیرہ‘‘ یا ’’أنا مسلم‘‘ یا ’’أنا من أمۃ محمد صلي اللّٰہ عليه وسلم ‘‘ یا ’’أنا أحبہ‘‘ یا ’’أنا من المسلمین‘‘ یا اس جیسے دیگر کلمات بولنا۔ یا یہ کہنا: ’’مسلمانوں کا دین حق ہے‘‘ برخلاف اس شخص کے جو کوئی دین ہی نہ رکھتا تھا، وہ اگر ’’اٰمنت باللّٰہ ‘‘ یا ’’أسلمت للّٰہ ‘‘ یا ’’اللّٰه خالقي أو ربي‘‘ کہہ کر پھر آخری شہادت ادا کرے گا تو وہ مسلمان ہو جائے گا۔
جو شخص اسلام قبول کرے اسے ایمان بالبعث کا حکم دینا مندوب ہے۔ آخرت میں اسلام کے فوائد کے حصول کے لیے مذکورہ امور کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ وہ دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن کی تصدیق کرے۔ پھر اگر وہ ان باتوں پر ایمان لایا اور دل سے تصدیق کی اور باوجود قدرت کے زبان سے شہادتین کا تلفظ نہ کیا تو ابھی تک وہ اپنے کفر پر باقی ہے اور ہمیشہ کے لیے آگ میں رہے گا جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
لیکن اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں ائمہ اربعہ کا ایک قول یہ ہے کہ اسے اس کا ایمان نفع دے گا۔ اس کی غایت یہ ہے کہ وہ عاصی مومن ہے۔ اگر اس نے زبان سے شہادتین کا تلفظ کیا ہے اور دل سے مومن نہیں ہوا تو وہ آخرت میں بالاجماع کافر ہے۔ رہی دنیا تو دنیا میں ہم اس پر ظاہراً مسلمانوں والے احکام جاری کریں گے۔ پھر اگر ایک مسلمان عورت سے اس نے نکاح کر لیا ہے، پھر دل سے تصدیق کی تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے، جب تک کہ وہ اسلام کے بعد تجدیدِ نکاح نہ کرے۔
نزع اور عذاب کے وقت ایمان لانا:
اہلِ حق کا مذہب یہ ہے کہ غرغرے کے وقت ایمان لانا اور عذابِ استیصال کے معاینے کے وقت کا ایمان نفع نہیں دیتا ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُھُمْ اِِیْمَانُھُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ وَخَسِرَ ھُنَالِکَ الْکٰفِرُوْنَ﴾[المؤمن: ۸۵]