کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 582
جس نے یہ کہا ہے کہ قاتل کی توبہ قبول نہیں ہے تو اس کی مراد قتل سے زجر وتنفیر ہے، ورنہ اس بارے میں کتاب وسنت کی نصوص صریح اور واضح ہیں کہ اس کے لیے کافر کی مثل توبہ مقبول ہے، بلکہ زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ مرجیہ کا قول ہے:
’’لا یضر مع الإیمان ذنب کما لا ینفع مع الکفر طاعۃ‘‘
[ایمان کے ساتھ گناہ اسی طرح ضرر رساں نہیں ہے جس طرح کفر کے ساتھ اطاعت نفع مند نہیں ہے]
یہ اللہ تعالیٰ پر محض افترا اور بہتان ہے۔ جو دلائل اس کی تائید میں وہ ذکر کرتے ہیں تو نصوصِ قطعیہ کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دلائل سے ان کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے۔ اس لیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ یہ اعتقاد رکھے کہ نافرمان مومنوں کی ایک جماعت آگ میں داخل ہو گی۔ اس کا انکار کرنا کفر ہے، کیونکہ اس میں قطعی الدلالۃ نصوص کی تکذیب ہے۔
کلمہ کفر بولنے کا انجام:
امام الحرمین نے اہلِ اصول سے نقل کیا ہے کہ جس نے کلمہ کفر کہا اور یہ گمان کیا کہ یہ توریہ ہے تو وہ ظاہراً اور باطناً کافر ہو گیا۔ لیکن جس شخص کو کوئی وسوسہ لاحق ہوا اور وہ ایمان میں یا خالق تعالیٰ میں متردد ہوا یا اس کے دل کو نقص یا سبّ عارض ہوا اور وہ کراہت شدیدہ کے ساتھ اسے نا پسند کرنے والا ہے اور اس کے دفع پر قادر نہیں ہے تو اس پر کچھ ضرر اور گناہ نہیں ہے، بلکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ سے اس کو دور کرنے پر استعانت طلب کرے۔ اسے امام ابن عبدالسلام وغیرہ نے ذکر کیا ہے، وللّٰہ الحمد۔
شہادتین کا اقرار:
اصلی کافر یا مرتد اگرچہ ایک شہادت کا اقرار کرنے والا کیوں نہ ہو، مگر جب تک وہ دونوں شہادتوں کا اقرار نہیں کرے گا، اس کا اسلام معتبر نہیں ہو گا۔ شہادتین ادا کرنے میں ترتیب شرط ہے۔ اگر پہلے ’’أشھد أن محمداً رسول اللہ‘‘ کہے گا اور پھر ’’أشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ ‘‘ کہے گا تو مسلمان نہ ہو گا۔ پھر جس شخص کا کفر اصل رسالت کے انکار کے سبب ہے، اسے شہادتین کہنا کافی ہو گا اور جس کا کفر عرب کے ساتھ تخصیص رسالت کے سبب سے ہے جیسے عیسائی تو وہاں یوں کہنا شرط ہے: