کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 581
عذاب کرے، پھر اس کا انجام بخشش ہے، وہ آگ سے باہر نکلے گا اس حال میں کہ وہ جلنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکا ہو گا۔ اسے نہرِ حیات میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور پھر اسے جمال، نضارت اور حسنِ عظیم عطا فرما کر بہشت میں لے جایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے سابقہ ایمان اور اعمال صالحات کے بدلے میں اس کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے، وہ اسے ملے گا۔ جیسا کہ اس بارے صحیح بخاری وغیرہ میں صحیح احادیث مروی ہیں۔[1]
اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے ابتدا ہی میں معاف کر دے، اس سے مسامحت فرمائے اور اس کے مخالفین کو راضی کر دے اور پھر نجات پانے والوں کے ہمراہ جنت میں لے جائے۔ خوارج کا یہ قول کہ مرتکبِ کبیرہ کافر ہے اور معتزلہ کا یہ قول، کہ وہ حتمی طور پر آگ میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اس سے عفو اور بخشش جائز نہیں ہے، جس طرح اطاعت گزار کو عذاب جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر محض بہتان ہے ۔تعالیٰ اللّٰہ عما یقول الظالمون والجاحدون علوا کبیرا۔
آیتِ کریمہ: ﴿وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا﴾[النسائ: ۹۳]
[اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غصے ہوگیا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے]
اس شخص پر محمول ہے جو قتلِ مسلم کو حلال جان کر اسے قتل کرتا ہے، کیونکہ قتل کا یہ استحلال کفر ہے۔ اس صورت میں خلود سے مراد تمام کفار کی مثل جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہنا ہے۔ یا پھر یہ آیت اس شخص پرمحمول ہے جو قتلِ مسلم کو حلال نہیں جانتا، ایسی صورت میں اس آیت میں لفظ خلود مستلزم دوام نہیں ٹھہرے گا، جیسا کہ شرعی نصوص اور لغوی قواعد اس پر دلالت کرتے ہیں۔ یعنی اگر اسے عذاب کیا جائے تو اس کی یہ (خلود) جزا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا، جیسا کہ ان آیات ﴿وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾[النساء: ۴۸] اور ﴿اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾[الزمر: ۵۳] سے معلوم ہوتا ہے۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۸۴)