کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 579
کہا کہ اگر مجھے اس بات کا حکم دیں گے تو میں اس پر عمل نہ کروں گا۔ اگر بیماری کی اس شدت میں ترکِ نماز پر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑے گا تو یہ مجھ پر ظلم ہو گا اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سچ ہوتا تو میں نجات پاتا، کیونکہ اس میں مرتبۂ نبوت کی تنقیص ہے۔ یا کہا کہ ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ ‘‘ بھوک سے بے نیاز نہیں کرتا ہے اور یہی تمام اذکار کا حکم ہے۔ یا موذن کی آواز کو گھنٹی کی آواز کی مانند کہا۔ یا اذان کے ساتھ ناقوسِ کفر کی تشبیہ کا ارادہ کیا۔ یا یہ کہا کہ میں قیامت سے نہیں ڈرتا۔ یا کہا یہود مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ یا کسی نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے تو اس نے استخفافاً جواب دیا کہ میں نہیں جانتا۔ یا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صحبت کا انکار کیا، یا عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی۔ یا کہا کہ میں اپنے فعل کا خالق ہوں۔ یا بطور مزاح کہا: ’’أنا اللّٰہ ‘‘ [میں اللہ ہوں] یا استخفافاً کہا: محشر یا جہنم کیا چیز ہے؟ یا کہا: ہر عالم پر اللہ کی لعنت، اگرچہ استغراق کاارادہ نہ کرے۔ یا کہا کہ روح قدیم ہے۔ یا کہا کہ جب ربوبیت ظاہر ہوئی تو الوہیت جاتی رہی اور اس سے مراد رفع احکام ہو، یا اس کی صفاتِ ناسوتیہ لاہوتیہ میں فنا ہو گئیں۔ یا اس کی صفات، صفات حق سے بدل گئی ہیں۔ یا میں اللہ کو دنیا میں دیکھتا ہوں اور دو بدو اس سے باتیں کرتا ہوں۔ یا اللہ تعالیٰ صورتِ حسنہ میں حلول کرتا ہے، یا اس نے شرعی تکلیف مجھ سے ساقط کر دی ہے۔ یا غیر سے کہا کہ تو عملِ اسرار میں ظاہرۃ الشان عبادات کو چھوڑ دے۔ یا کہا کہ سماعِ غنا امورِ دین سے ہے یا قرآن سے زیادہ دل میں موثر ہے، طریقِ عبودیت کے بغیر بھی بندے کا اللہ تعالیٰ کی طرف وصول ہو سکتا ہے، یا روح اللہ تعالیٰ کا نور ہے، جب نور سے نور جا ملا تو متحد ہو گیا۔ میں نے مذاہب اربعہ کی بنیاد پر اس باب کی فروع کثیرہ کو کتاب ’’الإعلام بما یقطع الإسلام‘‘ میں استقراً لکھا ہے، اگرچہ ان میں بعض ضعیف اقوال بھی ہیں۔ حدیث میں آیا ہے: جس کسی نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو اگر وہ کافر نہیں ہے تو یہی کہنے والا کافر ہو جاتا ہے۔ (رواہ الطبراني وغیرہ) [1] دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’(مسلمان) بھائی کو کافر کہنا یا لعنت کرنا، اس کے قتل کرنے کے برابر ہے۔‘‘[2] تیسری حدیث میں ہے:
[1] المعجم الکبیر (۱۰/۲۲۴) نیز دیکھیں: صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۷۵۳) صحیح مسلم (۶۰) [2] المعجم الکبر (۱۸/۱۹۳) نیز دیکھیں: صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۷۰۰)