کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 575
حدیث میں آیا ہے: (( لَا تَسُبُّوْا الدَّھْرَ فَإِنَّ الدَّھْرَ ھُوَ اللّٰہُ )) [1] [دہر (زمانے) کو گالی نہ دو، کیوں کہ دہر اللہ تعالیٰ ہی ہے] میں کہتا ہوں: گمراہ شعرا چرخ، فلک، سیہر [آسماں]، زمان، روزگار اور دہر کی شکایت میں رات دن بسر کرتے ہیں، حالانکہ یہ نسبت حق تعالیٰ کی طرف جاتی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کا شاکی ہو اور معاذ اللہ اسے ظالم، ستم گار، سفلہ پرور، ناہموار اور بدکردار کہے وہ اجماعاً کافر ہو جاتا ہے۔ مگر یہ قوم کسی طرح سے اس حکایت و شکایت سے باز نہیں آتی، إلا من رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وعصمہ بمنہ۔ اسی طرح بعض خطبا کا یہ کہنا: ’’سبحان من لم یزل معبودا عند من لم یعلم کونہ معبودا بالقوۃ أي أہلا لأن یعبد‘‘ [پاک ہے وہ جو ہمیشہ اس شخص کے نزدیک بھی معبود رہا جو اس کا بھی معبود ہونا نہیں جانتا تھا۔ یعنی اسے اس بات کا اہل سمجھتا تھا کہ اس کی عبادت کی جائے] کیونکہ اس میں قِدم عالم کا وہم ہے اور یہ عقیدہ کفر ہے۔ اسی طرح یہ قول: ’’یا قدیم الأزمان‘‘ [اے قدیم الازمان!] اس لیے کہ رب تعالیٰ متقید بزمان نہیں ہے، بلکہ یہ کلام باطل ہے۔ اسی طرح یہ قول: ’’کل ما یفعلہ اللّٰه خیر‘‘ [ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے بہتر ہے] اس لیے کہ اس میں عالم سے وجودِ شر کی نفی کا ایہام ہے۔ نیز اس میں اس امر کا ایہام بھی ہے کہ بندہ جو معاصی کرتا ہے، وہ سب خیر ہے۔ اسی طرح یہ قول: ’’لا تسافر حتی یطلع القمر‘‘ [سفر نہ کر حتی کہ چاند طلوع ہو جائے] کیونکہ یہ قول بعینہ اس قول کی مانند ہے: ’’مطرنا بنوء کذا‘‘ [ہمیں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش دی گئی ہے]۔ حکایت: ایک نجومی نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک بار کہا: ’’لا تقاتل أعدائک حتی یطلع لک القمر‘‘ [آپ اس وقت تک اپنے دشمن سے جنگ نہ کریں جب تک آپ کے سامنے چاند نہ طلوع ہو
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۲۴۶)