کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 572
میں کہتا ہوں: اسی طرح وہ اشعار جو ان اشعار کی مثل ہوں جیسے کسی شاعر کا قول ہے: دل از عشق محمد ریش دارم رقابت با خداے خویش دارم [میرا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں زخمی ہے، اور میں اپنے خدا کے ساتھ رقابت رکھتا ہوں] یا عرفی شیرازی کا یہ قول ہے: تا مجمع امکان و وجوبت ننوشتند مورد متعین نشد اطلاق اعم را [جب تک وہ امکان و وجوب کی مطابقت کو نہ لکھتے تو اطلاق اعم کا مورد متعین نہ ہوتا] یا جیسے قصیدہ بردہ کا یہ شعر ہے: یا أکرم الخلق ما لي من ألوذ بہ سواک عند حدوث الحادث العمم [اے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ عزت والے! عام حوادث کے وقت تیرے سوا میرا کوئی نہیں ہے جس کی میں پناہ حاصل کر سکوں] یا یہ مصرع ہے: ’’ومن علومک علم اللوح والقلم‘‘ [لوح وقلم کا علم تیرے علم سے ہے] یا میر آزاد کا یہ شعر ہے: ما کان یعرف ألواحا ولا قلما وکان یعرف ما في اللوح والقلم [وہ الواح وقلم کو تو نہیں پہچانتا تھا، البتہ وہ لوح وقلم میں جو کچھ ہے اسے جانتا تھا] اگرچہ اس مصرع یا شعر میں تاویل کی گنجایش ہے۔ یاجیسے جامی رحمہ اللہ کا یہ شعر ہے: بقلم گر نرسید انگشتش بود لوح وقلم اندر مشتش [اگرچہ قلم تک اس کی انگلی نہ پہنچی، لیکن لوح وقلم اس کی مٹھی میں ہیں] یا جیسے درود کے بعض وہ الفاظ جو ’’دلائل الخیرات‘‘ میں ہیں، کیونکہ یہ معانی شرع میں نہیں آئے اور نہ شرع نے ان مبانی کی اجازت دی ہے۔