کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 571
تمازجت الحقائق بالمعاني فصرنا واحدا روحاً ومعنیً [حقائق معانی کے ساتھ مل کر یک جان ہو گئے، پس ہم روحاً اور معناً ایک ہو گئے] پس مذکورہ بالا اقوال اور اس جیسے دیگر اقوال بولنا اہلِ سنت کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ ہم نے علی خواص رحمہ اللہ سے پوچھا تھا کہ قوم کے کلام میں جو تغزلات ہوتے ہیں، کیا ان سے اللہ تعالیٰ مراد ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں، اس سے مراد مخلوق ہے، لیکن سمجھنے والا ان الفاظ سے حق تعالیٰ کے حق میں وہ بات سمجھتا ہے جو سماع کے وقت اسے باعث حضور مع الحق ہوتی ہے، کیونکہ اولیاء اللہ انبیا ورسل کے بعد مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ حق تعالیٰ کو اس امر سے بالا تر سمجھتے ہیں کہ اسے اپنے تغزلات کا محل ٹھہرائیں۔ اس لیے وہ محبین اور محبوبین کے ساتھ ضربِ مثل کرتے ہیں، جیسے قیس، لبنا اور غیلان وغیرہ کے ساتھ، انتھیٰ۔ اس میں غور وفکر کرنا چاہیے۔ اسی طرح ان اشعار کا سماع بھی ممتنع ہے جو متنبی کے قول کی طرز پر ہوں۔ جیسے اس نے محمد بن زریق کے حق میں کہا ہے: لو کان ذو القرنین أعمل رأیہ لما أتی الظلمات صرن شموسا [اگر ذوالقرنین اپنی رائے پر عمل کرنے والا ہوتا تو وہ جن اندھیروں میں پھنسا ہے، وہ سورج بن جاتے] أو کان لج البحر مثل یمینہ ما انشق حتی جاز فیہ موسی [یا سمندر کی چوڑائی اس کے دائیں ہاتھ کی مانند ہوتی تو وہ نہ پھٹتا یہاں تک کہ موسیٰ اس میں سے گزر جاتا] أو کان للنیران ضوء جبینہ عبدت فصار العالمون مجوسا [یا آگ کی طرح اس کے نورِ پیشانی کی پرستش کی جاتی تو سارے جہان کے لوگ مجوسی بن جاتے]