کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 568
قال ھذا القائل: أردت بقولي ولا نراہ عدم رؤیتنا لہ في الدنیا، قلنا لہ: قد أطلقت القول، والإطلاق في محل التفصیل خطأ، وقد أجمع أہل السنۃ علی منع کل إطلاق لم یرد بہ الشریعۃ سواء کان في حق اللّٰہ أو في حق أنبیائہ أو في حق دینہ‘‘ [’’سبحانہ من کان العلا مکانہ‘‘ [پاک ہے وہ ذات جس کا مکان و مقام بلند ہے] اس جیسے اور اس کے مثل الفاظ بولنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ کلمات عوام الناس میں یہ ابہام پیدا کرتے ہیں کہ یقینا اللہ تعالیٰ کسی خاص مکان میں ہے اور اگر اس قول کا قائل یہ کہے کہ میرے اس قول ’’ولانراہ‘‘ [اور ہم اسے نہیں دیکھتے ] سے مراد ہمارا اسے دنیا میں نہ دیکھنا ہے تو ہم اسے کہیں گے تو نے تو مطلق طور پر یہ بات کہی ہے اور تفصیل کے محل ومقام میں مطلقاً بات کرنا غلطی ہے۔ اہلِ سنت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر اس چیز کا اطلاق ممنوع ہے جس پر شریعت وارد نہیں ہوئی ہے خواہ وہ اطلاق اللہ کے حق میں ہو یا اس کے انبیا کے حق میں یا اس کے دین کے حق میں] شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے تھے: ’’ما أطلق الشرع في حقہ تعالیٰ أو في حق أنبیائہ أو في حق دینہ أطلقناہ، وما منع منعناہ، وما لم یرد فیہ إذن و لا منع، ألحقناہ بالممنوع حتی یرد الإذن في إطلاقہ‘‘ انتھیٰ۔ [شریعت نے اللہ تعالیٰ کے حق میں یا اس کے انبیا کے حق میں یا اس کے دین کے حق میں جس چیز کا اطلاق کیا ہے، ہم بھی اس کا اطلاق کریں گے اور جس کا اطلاق منع فرمایا ہے ہم اس کے اطلاق سے رک جائیں گے اورجس چیز کے متعلق اجازت یا ممانعت وارد نہیں ہوئی، تو ہم اسے ممنوع کے ساتھ ہی شامل کر دیں گے حتی کہ اس اطلاق کے متعلق شریعت کی اذن واجازت مل جائے] قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ما لم یرد لنا فیہ إذن ولا منع، نظرنا فیہ، فإن أوہم ما یمتنع في حقہ