کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 563
بولنے کو کفر جانتا ہے تو کافر ہو گا ورنہ نہیں۔ حسام الدین کا بھی یہی فتویٰ ہے، مگر طحاوی نے کہا ہے جس چیز کا ارتداد ہونا یقینی ہے، اس کے ظاہر ہونے سے ردت کا حکم دیا جائے گا اور جس میں شک ہے اس پر حکم نہ دیا جائے گا۔ بحکم: (( اَلْإِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰی عَلَیْہِ )) [1] [اسلام سر بلند ہے، اس پر کوئی سر بلند نہیں ہوتا] مسلمان کو کافر کہنے میں جلدی نہ کرنا چاہیے، کیونکہ علما نے مجبور ومکرہ کے اسلام کو صحیح کہا ہے۔ 53۔فتاویٰ تاتارخانی میں ’’ینابیع‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ کفر اس وقت تک کفر نہیں ہے جب تک اس کفر کے مطابق اعتقاد نہ بنائے۔ محیط و ذخیرہ میں کہا ہے کہ جب تک مسلمان قصداً کفر نہ کرے، وہ کافر نہیں ہوتا ہے۔ مضمرات میں ’’نصاب‘‘ اور ’’جامع اصغر‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر ایک شخص نے عمداً کلمۂ کفر کہا، لیکن کفر کا اعتقاد نہ کیا تو بعض علما کے نزدیک کافر نہ ہو گا، کیونکہ کفر کا تعلق اعتقاد سے ہے۔ بعض نے کہا کہ کافر ہو جائے گا، اس لیے کہ یہ کفر پر رضا ہے۔ 54۔ایک جاہل نے کلمۂ کفر کہا اور وہ نہیں جانتا کہ یہ کفر کا کلمہ ہے تو بعض علما کے نزدیک کافر نہ ہو گا، کیونکہ جہل عذر ہے۔ بعض نے کہا کہ جہل عذر نہیں ہے، وہ کافر ہو گیا ہے۔ 55۔میاں بیوی میں سے کسی ایک کے کافر ہونے سے فوراً نکاح باطل ہو جاتا ہے، قاضی کے حکم پر موقوف نہیں ہے۔ یہ منتقی کی روایت ہے۔ 56۔اگر کوئی شخص پارسیوں جیسی ٹوپی اور ہنود جیسا جامہ پہنے تو بعض علما کے نزدیک کافر ہو جائے گا اور بعض کے نزدیک نہیں ہو گا۔ بعض متاخرین نے کہا ہے کہ اگر ضرورت سے پہنے گا تو کافر نہ ہو گا۔ میں کہتا ہوں: پہلا قول راجح ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے: (( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ )) [2] [جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے] نیز اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
[1] شرح معاني الأثار للطحاوي (۳/۲۵۷) [2] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۰۳۱)