کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 556
آثارھا تدوم بحیث تصیرحالا للشخص وھیئۃ راسخۃ فی قلبہ، بخلاف آثار معاصي الجوارح، فإنھا سریعۃ الزوال بمجرد الإقلاع مع التوبۃ والاستغفار والحسنات الماحیۃ والمصائب المکفرۃ، ﴿اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ ﴾‘‘[1] [یقینا کبائر بہت خطرناک گناہ ہیں اور ان کا مرتکب گناہ گاروں میں سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر گناہ وقوع کے اعتبار سے عام، ارتکاب کے اعتبار سے آسان اور پھیلنے کے اعتبار سے بہت عام ہیں۔ فرائض کو ادا کرنے میں سستی کرنے کی وجہ سے ان میں سے بعض کا مرتکب ہونے سے کوئی انسان کم ہی بچا ہو گا، اسی لیے ان کی طرف توجہ دینا اور ان سے خبر دار رہنا اولیٰ ہے۔ ائمہ میں سے کسی نے کہا ہے۔ کبائرِ قلوب کبائرِ جوارح سے بڑے ہیں۔ کیونکہ کبائرِ جوارح فسق و ظلم کو واجب کرتے ہیں، اور کبائرِ قلوب اس لحاظ سے بڑے ہیں کہ وہ نیکیوں کو کھا جاتے ہیں اور سخت سزاؤں کے موجب بنتے ہیں۔ اس نے کہا: ائمہ میں سے کسی نے کبائر باطنہ کو بیان کیا انھیں شمار کیا تو وہ ساٹھ سے زیادہ بنے۔ اس نے کہا: ان کبائرِ باطنہ کے ارتکاب پر مذمت کرنا، زنا، چوری، قتل اور شراب نوشی پر مذمت سے بڑی ہے، کیونکہ ان کا بگاڑ بڑا اور ان کا اثر برا اور دائمی ہے، کیونکہ وہ کسی شخص کی مستقل حالت بن کر رہ جاتے ہیں اور اس کے دل میں راسخ ہو جاتے ہیں، برخلاف جوارح کے گناہوں کے، کیوں کہ بلاشبہہ وہ جلد زائل ہو جاتے ہیں اور محض توبہ، استغفار، حسنات ماحیہ اور مصائب مکفرہ کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔ ’’یقینا نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ نصیحت ویاد دہانی ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے‘‘] ان کبائر باطنہ کے ضمن میں یہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس لیے اس کے مراتب پر آگاہ کرنا ضروری ٹھہرا۔ جب آدمی شرک سے بچ جاتا ہے اور صفاتِ کفر سے محفوظ رہتا ہے تو اس کی نجات کی امید یقینی ہوتی ہے اگرچہ عذاب جھیلنے کے بعد ہو۔ اگر عیاذاً باللہ عقیدے میں یا عمل میں یا دونوں میں مشرک اور اوصافِ کفر کے ساتھ متصف تھا تو پھر نجات کی کوئی امید باقی نہیں ہے، واللّٰہ أعلم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[1] الزواجر عن اقتراف الکبائر للھیتمي (۱/۴۴)