کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 554
کی جانب منادی رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایمان میں اکمل المومنین وہ ہے جو خلق میں احسن مسلمین ہو۔ قطع رحمی کرنے والے سے صلہ رحمی کرے۔ نہ دینے والے کو دے، ظالم کو معاف کرے، والدین کے ساتھ نیکوکار ہو۔ صلہ ارحام، حسنِ جوار اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرے، مسافر اور مملوک غلام کے ساتھ رفق ونرمی سے پیش آئے۔ فخرو تکبر اور مخلوق پر دست درازی سے بچے، کسی کو ناحق نہ ستائے، معالی اخلاق حاصل کرے، گندی عادات سے منع کرے اور ان سب امور میں کتاب وسنت کا تابع بنے۔ اہلِ حدیث کا طریقہ وہی دین اسلام ہے جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ حدیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ یہ امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی، بہتر (۷۲) فرقے آگ میں جائیں گے اور ایک فرقہ ناجی ہو گا، جسے جماعت کہتے ہیں اور اس فرقے کی پہچان یہ ہے: (( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ الْیَوْمَ )) [1] [جس طریقے پر آج میں اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گامزن ہیں] تو یہ لوگ خالص اسلام اور ملاوٹ سے پاک ایمان کے ساتھ متمسک ہوئے۔ ان کا نام اہلِ سنت وجماعت ٹھہرا۔ ان میں صدیقین، شہدا اور صالحین ہوئے ہیں۔ یہ اعلامِ ہدی، مصابیح دجی، اصحابِ مناقب ما ثورہ اور فضائل مذکورہ ہیں۔ انھیں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ منصورہ قرار دیا، قیامت تک ان کا بول بالا رہے گا۔ انھیں کوئی رسوا نہ کر سکے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سر سبزی وشادابی کی دعا دی ہے اور ان کی تعدیل فرمائی ہے، وللّٰہ الحمد۔ یہاں پر کتاب ’’قطف الثمر في عقیدۃ أہلِ الأثر‘‘ کا خلاصہ اختتام کو پہنچا۔ اس ترجمے میں مذکورہ کتاب کے الفاظ کے ترجمے اور اس پر عدمِ زیادت و نقصان کی قید کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، صرف مطالب ومقاصد کا بیان احاطۂ تحریر میں لایا گیا ہے، والحمد للّٰہ أولاً وآخراً۔ ٭٭٭
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۴۱)