کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 553
ہیں۔ اسی لیے اس گروہ صدق اور متبع حقِ جماعت کا نام اہلِ حدیث، اہلِ اثر، اہلِ سنت، اہلِ کتاب اور اصحابِ اتباع ہے۔
اجماع کی حقیقت:
اجماع یہ ہے کہ اہلِ علم کے اقوال واعمال ظاہرہ و باطنہ کا کسی امر دین پر اجتماع ہو، اس اتفاق کو اجماع کہتے ہیں۔ اجماع منضبط وہ کہلاتا ہے جس پر سلف صالح گامزن تھے۔ سلف سے مراد صرف عصرِ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین ہے۔ سلف کے بعد بہت سا اختلاف رونما ہوا جس کے نتیجے میں امت منتشر ہو گئی، اجماع جداگانہ نہ پایا گیا۔ اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ محققین نے اجماع کے امکان کے باوجود اجماع کے وجود کا انکار کیا ہے۔
مومنوں کے باہمی تعلقات اور اخلاق حسنہ کا بیان:
اہلِ حدیث ان اصول کے باوجود شریعت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عامل ہیں اور جمعہ وجماعات کی مکمل پابندی کرتے ہیں۔ وہ امرا اور امت کے ناصح ہیں اور حدیثِ ذیل کے معتقد ہیں:
(( اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضاً )) [1]
[مومن، مومن کے لیے ایک عمارت ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے]
وہ اس حدیث کے بھی قائل ہیں:
(( مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِيْ تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَکیٰ مِنْہُ عُضْوٌ، تَدَاعیٰ لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمّٰی وَالسَّہَرِ )) [2]
[مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد و شفقت میں ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضا میں سے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور بخار اور رت جگے میں اس کا شریک ہوتا ہے]
وہ مصیبت پر صابر، آسانی پر شاکر، تلخی پر راضی، مکارمِ اخلاق کی طرف داعی اور محاسنِ اعمال
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۶۸۰) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۵۸۵)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۶۶۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۵۸۶)