کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 548
تھے۔ یہ استثنا کسی شک کی بنا پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ تبرک اور امر ایمان کو اللہ کے سپرد کرنے کے لیے ہے۔ علما کے نزدیک یہ ایک سنت ماضیہ ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ﴾[الفتح: ۲۷] [تم مسجد حرام میں ضرور بالضرور داخل ہو گے، اگر اللہ نے چاہا، امن کی حالت میں] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین عظام رحمہم اللہ اور صوفیہ وغیرہ کی ایک جماعت اسی طرف گئی ہے۔ تنازع کی صورت میں اہلِ حدیث کا رویہ: اہلِ حدیث دین اور قدر میں جدل ومرا اور خصومت ومکابرت کے منکر ہیں اور وہ ثقات و عدول کی روایاتِ صحیحہ اور آثارِ مرویہ کو تسلیم کرتے ہیں جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل سند کے ساتھ پہنچ جائیں۔ وہ ’’کیف‘‘ اور ’’لِمَ‘‘ کہنا بدعت جانتے ہیں۔ ان کا قول یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے شر کا حکم نہیں دیا، بلکہ خیر کا حکم کیا ہے۔ وہ شرک، کفر اور معاصی سے ناراض ہے، اگرچہ یہ امور اسی کے ارادے سے ہوتے ہیں۔ اہلِ حدیث رب تعالیٰ کے نزول والی حدیث کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ کتاب وسنت کے ساتھ معتصم اور متمسک ہیں، کیونکہ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی ہے: ﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾[النسائ: ۵۹] [پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ] اللہ تعالیٰ کی طرف کسی چیز کے رد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن کی طرف رجوع کرے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رد یہ ہے کہ وہ سنت وحدیث کی طرف آئے۔ یہ لوگ تقلیدِ رجال اور اشتغال بالقیل والقال کو ناجائز جانتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جس شخص کا قول یا فعل یا عمل یا چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر اور سنت سے بال برابر بھی مخالف ہو وہ رد کر دینے کے لائق ہے۔ ہاں وہ اتباعِ سلف اور ائمہ دین کی اقتدا کو ان امور میں پسند رکھتے ہیں جو کتاب وسنت کے موافق ہیں۔ جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے اذن نہیں دیا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں فرمایا ہے، اپنے دین میں وہ اس کا اتباع نہیں کرتے۔ وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ وہ جس طرح چاہے گا اپنی مخلوق سے قریب ہو گا، جیسے اس کا ارشاد ہے: