کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 534
ہماری مدد فرما] مزید فرمایا: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾[پس تم اللہ سے ڈر جاؤ] نیز فرمایا: ﴿اَلْیَوْمَ تُجْزٰی﴾[آج بدلہ دیا جائے گا] اس سے معلوم ہوا کہ کسب بندے کے لیے ہے، نیکی پر ثواب اور گناہ پر عقاب ہے۔ اس کا وقوع اللہ تعالیٰ کی قدر وقضا سے ہوتا ہے۔ تقدیر پر ایمان کے درجات: ایمان بالقدر کے دو درجے ہیں۔ ایک اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ اپنے قدیم علم کے ساتھ وہ سب کچھ جانتا ہے جو اس کی مخلوق کرتی ہے۔ اسے ساری طاعات، معاصی اور ارزاق و آجال کے احوال معلوم ہیں۔ اس نے لوحِ محفوظ میں مقادیرِ خلق کو لکھ رکھا ہے۔ اس نے پہلے قلم کو بنا کر اسے حکم دیا کہ قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کچھ لکھ۔ [1] یہ تقدیر، جو اس کے علم کی تابع ہے، متعدد جگہوں میں اجمالاً اور تفصیلاً ہوتی ہے۔ خلق روح سے پہلے شکم مادر میں ایک فرشتہ جنین کی طرف بھیجا جاتا ہے اور وہ چار باتیں لکھ دیتا ہے: رزق، اجل، عمل اور یہ کہ وہ سعید ہے یاشقی۔ [2] غالی قدریہ اسی قدر کے منکر ہیں، اس فرقے کے لوگ پہلے بہت زیادہ تھے، اب وہ تھوڑے ہیں۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی مشیت نافذہ اور قدرت شاملہ پر ایمان لانا ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ سارے آسمانوں اور ساری زمینوں میں جو حرکت اور سکون ہوتا ہے، وہ اسی کی مشیت سے ہوتا ہے۔ وہ جس امر کا ارادہ نہیں کرتا، وہ امر اس کے ملک میں نہیں ہوتا۔ موجودات ہوں یا معدومات، وہ ہر چیز پر قدیر ہے۔ غرض کہ آسمان وزمین میں جو بھی مخلوق ہے، اس کا خالق اللہ جل وعلا ہی ہے۔ اس کے سوا کوئی خالق ہے نہ کوئی معبود و رب اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معصیت سے منع فرمایا ہے۔ وہ متقین، محسنین اور مقسطین سے محبت کرتا ہے اور ایمان دار اور نیکو کار لوگوں سے راضی ہوتا ہے۔ وہ کافروں سے محبت نہیں رکھتا اور نہ قوم فاسقین سے راضی ہوتا ہے۔ وہ
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۱۵۵) [2] صحیح البخاري مع الفتح (۱۰/۴۷۷)