کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 527
’’لا یوصف اللّٰہ إلا بما وصف بہ نفسہ أو وصفہ بہ رسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا نتجاوز القرآن والحدیث‘‘ [اللہ تعالیٰ کا وصف صرف اسی چیز کے ساتھ بیان کیا جائے جس کے ساتھ اس نے خود اپنے آپ کا وصف بیان کیا ہے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وصف بیان کیا ہے اور ہم قرآن وحدیث سے تجاوز نہیں کرتے] تمام ائمہ کا یہی مذہب تھا، وللّٰہ الحمد۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا نام حی، علیم، سمیع، بصیر، رؤف اور رحیم بتایا ہے، پھر ان الفاظ کے ساتھ بعض مخلوقات کو بھی ذکر کیا ہے، لیکن خالق ومخلوق کی صفت میںصرف اسم ہی میں مشابہت ہے۔ اول تا آخر قرآن مجید، مکمل طور پر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور تمام ائمہ دین کا کلام موجود ہے۔ ان کو دیکھو، نصاً یا ظاہراً سب اس بات پر دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، عرش آسمانوں کے اوپر ہے، وہ اپنی ذات سے عرش پر مستوی ہے، خلق سے بائن ہے، وہ سمیع ہے، اسے شک نہیں ہوتا، وہ بلاریب بصیر ہے، بلاجہل علیم ہے، بلا بخل جواد ہے، بلا نسیان وسہو حفیظ ہے، بلا غفلت ولہو قریب ہے۔ وہ متکلم، ناظر، ضاحک، فرح، محب، کارہ، مبغض، راضی، ساخط، رحیم، عفو، غافر، معطی اور مانع ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے، ہر رات آسمانِ دنیا پر آتا ہے، لوگ جہاں کہیں بھی ہوں، وہ سب کے ساتھ ہے اور یہ معیت علم کے معنی میں ہے، جیسا کہ ائمہ سلف سے منقول ہے یا اس کی تاویل بھی کچھ ضرور اور لازم نہیں ہے، جیسا کہ بعض محققین کا مذہب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق یہ خبر دی ہے کہ وہ ذو المعارج ہے۔ فرشتے اور روح اس کی طرف عروج کرتے ہیں۔ وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے۔ فرشتے اس سے ڈرتے ہیں۔ ان کا یہ ڈر فوق کی طرف سے ہے۔ ان آیتوں کے یہ معانی حق ہیں، ان میں تحریف کی حاجت وضرورت نہیں ہے۔ بس اتنا کافی ہے کہ ان معانی کو جھوٹے گمانوں سے محفوظ رکھا جائے۔ کتاب وسنت میں قرب و معیت کے جتنے بھی دلائل ذکر ہوئے ہیں، وہ علو وفوقیت کے منافی نہیں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے قرب میں عالی اور اپنے علو میں قریب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں حجۃ الوداع کے سال بہت بڑے مجمع میں آسمان کی طرف انگلی کے ساتھ اشارہ کر کے فرمایا تھا: (( اَللّٰہُمَّ اشْھَدْ )) [1] [اے اللہ! گواہ رہنا] معراج کے واقع میں جو صحیحین وغیرہ میں تواتر کے
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۲۱۸)