کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 525
نہ جوہر، کیونکہ یہ الفاظ کتاب وسنت میں منصوص نہیں ہیں اور نہ اس پر اجماع ہوا ہے۔ پھر جو لوگ یہ الفاظ بولتے ہیں، کبھی ان سے صحیح معنی کا ارادہ کرتے ہیں اور کبھی فاسد معنی مراد لیتے ہیں۔ اہلِ حلول واتحاد اسی جگہ سے داخل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے اور مخلوقات کا وجود ہی خالق کا وجود ہے۔ غرض کہ اس معاملے میں لوگ تین طرح کے ہیں: ایک اہلِ حلول و اتحاد، دوسرے اہلِ نفی و جحود اور تیسرے اہلِ ایمان و توحید۔ حلولیہ کا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مکان میں ہے اور وہ عین مخلوق ہے۔ اہلِ نفی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ داخل عالم ہے نہ خارج عالم، نہ مبائن خلق نہ فوق عالم، اس کی طرف سے کوئی چیز نازل ہوتی ہے نہ اس کی طرف کوئی چیز صاعدہے، نہ وہ کسی کے قریب ہے اور نہ وہ کسی پر تجلی کرے اور نہ کوئی اسے دیکھے، چنانچہ متکلمہ، جہمیہ اور معطلہ کا یہی قول ہے، جس طرح کہ پہلا قول عباد جہمیہ کا تھا۔ جہمیہ متکلمہ تو کسی چیز کے عابد نہیں ہیں اور عباد جہمیہ ہر چیز کے عابد ہیں، ان کے کلام کا مرجع تعطیل وجحود کی طرف ہے جو فرعون کا قول تھا۔الحاصل جو شخص اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات میں کتاب وسنت کے خلاف کلام کرتا ہے وہ باطل خوص وبحث کرنے والا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہِ﴾[الأنعام: ۶۸] [اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہو جائیں] پھر ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے باطل اعتقادات کو ائمہ اربعہ مجتہدین اور سلف مسلمین کی طرف غلط نسبت کرتے ہیں، حالانکہ وہ اقوال ان ائمہ اور سلف سے ثابت نہیں ہیں اور نہ انھوں نے وہ بات کہی ہے جو یہ کہتے ہیں۔ لہٰذا جب ان سے اس دعوے کی دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہ ان سے کوئی صحیح دلیل نقل نہیں کر پاتے تو ان کا جھوٹ کھل جاتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اہلِ کلام کے حق میں فرمایا ہے کہ چھڑی اور جوتے سے ان کی پٹائی کرو اور قبائل وعشائر میں ان کی تشہیر کرو اور یہ بات کہو: