کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 524
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کی اور اس بات کا اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم شبِ معراج اللہ تعالیٰ کے پاس چڑھ کر گئے، اللہ تعالیٰ نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا: تم دوبارہ اپنے رب تعالیٰ کے پاس جاؤ اور نمازوں میں کمی کی درخواست کرو۔ یہ لمبی حدیث صحاح میں موجود ہے۔ [1] پس جو شخص فرعون کے موافق اور موسی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہو گا وہ گمراہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نفس کا جو وصف بیان کیا ہے اس کا منکر کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنا جو وصف بیان کیا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وصف بیان کیا ہے، اس میں کوئی تشبیہ نہیں ہے، جیسے کلم طیب اور عمل صالح کا اس کی طرف مرفوع ہونا یا عیسیٰ علیہ السلام اور ادریس علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لینا یا قرآن مجید کا نازل فرمانا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہیں، اگرچہ ساری کائنات اس کی قدرت کے نیچے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عرب وعجم کے سارے عباد کی فطرت اسی پر رکھی ہے کہ دعا کے وقت ان کے دل اوپر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ نیچے کی جانب اللہ تعالیٰ کا قصد نہیں کرتے۔ گمراہ لوگوں کا منشا یہ ہے کہ گمان کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ رب تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات کی مانند ہیں، گویا جس طرح کوئی بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا استوا عرش پر ہے۔ پس یہ تمثیل ہے جو گمراہی ہے، کیونکہ بادشاہ تخت کا محتاج ہے، اگر تخت کو الگ کر لیا جائے تو وہ گر جائے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ عرش سے اور اس کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہے، وہ تو خود حاملِ عرش ہے۔ اس کا عرش پر علو عرش کی طرف افتقار کا موجب نہیں ہے۔ اس بات میں اصل یہ ہے کہ جو چیز کتاب وسنت میں ثابت ہے، اس کی تصدیق کرنا واجب ہے، جیسے رب تعالیٰ کا علو اور رحمن کا عرش پر استوا وغیرہ۔
رہے نفی واثبات کے وہ الفاظ جو ابتداع اور احداث کیے گئے ہیں جیسے یہ کہ وہ جہت میں نہیں ہے، یا متحیز یا غیر متحیز نہیں ہے، یا نہ وہ جسم ہے نہ جوہر نہ عرض نہ متصل اور نہ منفصل وغیرہ پس اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ یا تابعین یا ائمہ مسلمین سے کوئی نص نہیں آئی ہے۔ ان میں سے کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جہت میں ہے یا بے جہت ہے، متحیز ہے یا نہیں، یا نہ جسم ہے
[1] صحیح البخاري مع الفتح (۱/۴۵۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۶۲)