کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 523
اور آسمان اس پر حاوی ہے، کیونکہ سلفِ امت اور ائمہ ملت میں سے کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے، بلکہ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے اور اپنی خلق سے جدا ہے، اس کی مخلوقات میں اس کی ذات کا کوئی جز اور حصہ نہیں ہے اور نہ اس کی ذات میں مخلوقات میں سے کوئی چیز ہے۔
امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے اور اس کا علم ہر مکان میں ہے۔ [1] عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ ہم اپنے رب تعالیٰ کو کس طرح پہچانیں گے؟ انھوں نے جواب دیا: اس طرح کہ وہ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے، خلق سے جدا ہے اور یہی قول امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ہے۔[2] امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت حق ہے، اللہ تعالیٰ نے آسمان پر سے حکم جاری کیا اور اپنے اولیا کے دل ان کی خلافت پر جمع اور مطمئن کر دیے۔[3]
اب جو شخص یہ اعتقاد کرے کہ اللہ تعالیٰ جوف سماوات میں محصور ومحاط ہے یا وہ عرش یا غیر عرش کا محتاج ہے یا عرش پر اس کا استوا مخلوق کے کرسی پر استوا کی مانند ہے تو ایسا شخص گمراہ اور مبتدع ہے اور جس کا یہ عقیدہ ہے کہ آسمانوں میں کوئی الہ ومعبود ہے اور نہ عرش پر کوئی اللہ ہے، جس کے لیے نماز پڑھی جاتی ہے اور اسے سجدہ کیا جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں اپنے رب تعالیٰ کے پاس نہیں گئے اور نہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہے تو وہ شخص فرعونی معطل ہے، کیونکہ فرعون نے موسی علیہ السلام کی اس بات میں تکذیب کی تھی کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے:
﴿ یٰھَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ * اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِِلٰٓی اِِلٰہِ مُوْسٰی وَاِِنِّیْ لَاَظُنُّہُ کَاذِبًا﴾[المؤمن: ۳۶، ۳۷]
[اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بنا، تاکہ میں راستوں پر پہنچ جاؤں۔ آسمانوں کے راستوں پر، پس موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں اور بے شک میں اسے یقینا جھوٹا گمان کرتا ہوں]
[1] کتاب السنۃ للإمام عبداللّٰه بن أحمد (ص: ۵)
[2] الرد علی المریسی (ص: ۲۴) اجتماع الجیوش الإسلامیۃ (ص: ۷۷)
[3] اجتماع الجیوش الإسلامیۃ (ص: ۵۹)