کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 522
ہمارے ساتھ اپنی معیت کا ذکر کیا ہے اور اس مسئلے کے دلائل سنت و آثار میں بہت زیادہ ہیں۔ اب جو شخص ان آیات اور احادیث کے بعد اللہ تعالیٰ کے جہتِ علو میں ہونے کا انکار کرے گا وہ کتاب و سنت کا مخالف ہے۔ صحیح دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ایک دوسری کے نیچے سات زمینیں بنائی ہیں۔ زمینِ علیا اور آسمانِ دنیا کے درمیان پانچ سو برس کا راستہ ہے۔ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک اتنا ہی فاصلہ ہے۔ پانی ساتویں آسمان کے اوپر ہے، رحمن کا عرش پانی پر ہے، اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور کرسی اس کے دونوں قدموں کی جگہ ہے۔[1] جو کچھ آسمانوں اور ساتوں زمینوں کے اندر ہے اور جو کچھ تحت الثریٰ، دریا کی تہ، بال اور درخت کی جڑ اور جو کچھ کشت وروئیدگی کے اندر ہے اور جہاں پتا گرتا ہے اور جو بات زبان سے نکلتی ہے، ریت اور خاک کی گنتی، پہاڑوں کا وزن، بندوں کے اعمال، ان کے قدموں کے نشانات، ان کا کلام، ان کے سانس اور ان چیزوں کے علاہ ہر چیز کو وہ جانتا ہے، ان میں سے کوئی چیز اس پر مخفی نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ساتویں آسمان کے اوپر عرش پر ہے۔ اس کے سامنے نار، نور اور ظلمت کے حجاب اور پردے ہیں۔ [2] اگر کوئی مبتدع اور مخالف آیتِ قرب ومعیت یا اس کی مانند کسی اور متشابہ آیت سے حجت لائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ مراد علم ہے، [3] کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ساتویں آسمان کے اوپر ہے، اسے وہیں سے سب کچھ معلوم ہے۔ وہ خلق سے الگ اور جدا ہے، لیکن کوئی جگہ اس کے علم سے خالی نہیں ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ جوفِ آسمان میں ہے
[1] یہ اثر سیدنا ابن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما سے موقوفاً مروی ہے۔ دیکھیں: المعجم الکبیر للطبراني (۸۷) تاریخ بغداد (۸/۲) [2] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس معنی میں ایک موقوف اثر مروی ہے۔ دیکھیں: المستدرک للحاکم (۲/۳۱۹) [3] یہ کہنا کہ احاطے سے مراد قرب و معیت ذاتی ہے، یہ ائمہ سلف کے بالکل خلاف ہے اور دوسرا عقیدہ کہ قرب و معیت سے مراد علم ہے، اس میں اختلاف ہے۔ ائمہ سلف متقدمین اور عامہ محدثین و مفسرین آیات کے سیاق کے مطابق معیت، قرب اور احاطے کی تفسیر علم و معونت وغیرہ سے کرتے ہیں، لیکن بعض محققین متاخرین نے تحقیق کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ قرب اور معیت وغیرہ آیات کی علم، معونت اور نصر وغیرہ سے تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، فقط ان پر ایمان لانا ہی کافی ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے قریب و ہمراہ ہے یا صفت کے اعتبار سے تو اس کا علم اسی ذاتِ باری تعالیٰ کو ہے۔ واللّٰه أعلم۔ [مولف رحمہ اللہ ]