کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 516
کے ایک منزل ہے۔ ہم ضغطہ قبر کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں۔ قبر بہشت کے چمنوں میں سے ایک چمن ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ ارواح واجساد نعیمِ مقیم اور عذابِ الیم میں مشترک ہیں۔ قالب خاک ہو جانے اور سفال وخشت بننے کے بعد اپنی روح کے ہمراہ نعیم وعذاب میں شریک حال رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عرض ونشور کے دن ہر قالب اور اس کی روح کو جمع کرے گا۔ چار پرندوں کے بارے میں ابراہیم علیہ السلام کا قصہ اسی راز کا اظہار ہے۔ اس غطا کا کشف موت کے بعد ہو گا۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ﴾[قٓ: ۲۲] [سو ہم نے تجھ سے تیرا پردہ دور کر دیا، تو تیری نگاہ آج بہت تیز ہے] اس وقت آنکھ کھلے گی اور انسان خوابِ غفلت اور جہل سے جاگے گا اور ایک اور ہی عالم دیکھے گا جو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا، نیز وہ جنت وجہنم کو دیکھے گا۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بہشت ودوزخ اس وقت موجود اور مخلوق ہیں۔ امر جنت کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے جیسے حور وقصور، ولدان وغلمان اور انہار واشجار وہ سب حق ہے۔ جنت کے تمام امر کو اسی پر قیاس کرنا چاہیے کہ جب کوئی بندہ ’’لا إلہ إلا اﷲ‘‘ کہتا ہے تو اسے جنت میں ایک درخت دیا جاتا ہے جس کے سائے میں سوار سو سال تک چلے، اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا۔ سو یہ حق ہے، بلکہ وہاں اس سے بھی بڑھ کر ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا، کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں یہ خیال گزرا۔ یہاں میں نے تمھاری فکر وخیال کی بنا پر بہت زیادہ امور سے تھوڑے سے بیان کیے ہیں۔ اس لیے جب تک آدمی اس جہاں میں ہے تب تک اس عالم کی تنگی کے مطابق اس کے فہم کا برتن تنگ ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی عقلوں کے مقید ہیں وہ صرف وہی چیز قبول کرتے ہیں جس پر برہان دلالت کرتی ہے۔ جو امر برہان عقلی کے بغیر ہے وہ ان کے نزدیک ہذیان ہے۔ ایسے لوگ ملاحدہ اور زنادقہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اللہ کی بابت سب سے زیادہ جاہل ہیں، چنانچہ آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں ہے۔ ان کی آرا کا اختلاف ہی ان کے فسادِ امر پر دلیل ہے۔ انبیا کا اصول غیر مختلف الفروع پر اتفاق ان کے صحتِ امر پر دلیل ہے۔ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حساب کے دن ساری مخلوق کو مبعوث اور تمام خلق کو صعید واحد میں جمع کر کے نقیر و قطمیر