کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 511
فرشتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی زمین کی طرف اترتا ہے۔ ان میں سے بعض کروبیین ہیں، بعض روحانیین، بعض حاملینِ عرش اور بعض کرام کاتبین۔ یہ بنی آدم پر موکل ہیں، جیسے جبرئیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام۔ عزرائیل[1] علیہ السلام قابض ارواح ہیں۔ ان فرشتوں میں سے بعض جنت کے دربان ہیں اور بعض آگ کے دروغے۔ کوئی ان میں سے مالک اور رضوان ہے۔ ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی حقیقت کا اقرار کرتے ہیں۔ پھر اس ایمان کے بعد ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو گیا اور رسالت کا پردہ ڈال دیا گیا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ ساری مخلوق اور ملل وادیان پر ہر فعل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت وانقیاد اور ہر اس کام کے ترک میں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھا، واجب ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق متابعت کے سوا ہر طریق مسدود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ رسالت کے سوا ہر دعوت مردود ہے۔ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو اولیا ہیں ان سے کرامات اور اجابات ظاہر ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع سے کرامات اور خوارقِ عادات کا ظہور ہوا تھا۔ اولیا کی کرامات انبیا کے معجزات کا تکملہ ہیں۔ جس کے ہاتھ پر کچھ اشیا مخرقات ظاہر ہوں اور وہ احکام شریعت کا ملتزم نہ ہو تو ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ وہ زندیق ہے اور جو کچھ اس سے ظاہر ہوا ہے وہ مکر واستدراج ہے۔ اولیا کی کرامات کئی قسموں کی ہوتی ہیں، جیسے ہوا سے ہواتف کا سماع ہونا، بواطن سے ندا کاسماع ہونا، زمین کا طے ہو جانا، اعیان کا تقلب کہ پتھر سونا ہو جائے، کشف ضمیر اور اسی طرح بعض حوادث کا ان کے وقوع سے پہلے علم؛ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکات ہیں۔ لوگوں میں سے سب سے زیادہ صحت وقرب وعبودیت کے ساتھ زیادہ حصے والا وہ شخص ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت سے زیادہ حصے والا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے: ﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾[آل عمران: ۳۱] [کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا] مزید ارشاد ہے:
[1] یہ نام قرآن مجید اور کسی صحیح حدیث میں مروی نہیں ہے۔