کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 51
پاس جو قرآن کا نسخہ ہے وہ بہت عمدہ، خوش خط، طلائی پانی سے لکھا ہوا، کم خواب یا اطلس یا مخمل کے جزدان میں بہت قیمتی جلد سے مجلد ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کرتے ہیں کہ گاہے گاہے اسے نکال کر چوم چاٹ لیا اور پھر واپس رکھ دیا۔ ان کے ہاں یہ قرآن مجید اس لیے نہیں ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے، اس پر غور و تدبر کر کے عمل کیا جائے اور اپنے ہر قول و عمل کو اس سے ملا کر دیکھا جائے کہ ہماری کونسی بات ظاہراً یا باطناً قرآن کے موافق ہے اور کون سی حا لت شکلاً اور معناً اس کے مخالف ہے، حالانکہ کتاب اللہ کی تلاوت اور تعلیم سے یہی مقصود ہے نہ کہ صرف اسے دیکھنا اور چومنا۔ ملا کا قرآن و سنت سے سلوک: جو مشرک اور بدعتی عربی و فارسی سمجھتے ہیں اور ملا اور مولوی کہلاتے ہیں، ان کا قرآن کے ساتھ صرف اس قدر تعلق رہتا ہے کہ کسی طرح کوئی لفظ یا آیت ایسی ہاتھ آ جائے جس سے کسی قسم کے شرک یا بدعت کے جواز پر استدلال ہو سکے، چاہے تاویل بعید اور غلط توجیہ کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، ہر چند دلالت تضنمی یا التزامی کے ساتھ ان کا مدعا پورا ہو جائے، گو اس کے مقابلے میں کتنی ہی آیات بینات اور واضح دلائل موجود کیوں نہ ہوں۔ جہاں تک سنتِ مطہرہ اور حدیث کا تعلق ہے، اول تو اہلِ شرک وبدعت، خصوصاً گور پرست و پیر پرست اور مقلدینِ مذاہب کے دل اس سے نفرت کرتے ہیں، کیونکہ کتبِ احادیث میں اس شرک اور لوگوں کے قیل وقال کی واضح مخالفت موجود ہے۔ اگر ہزار میں سے کوئی ایک دو، وہ بھی بطور دکھلاوے اور فخر کے، علمِ حدیث کی طرف توجہ کرتے بھی ہیں تو حدیث کی کتاب مشکات شریف سے آگے نہیں بڑھتے۔ اگر بالفرض کسی نے صحاح ستہ کو پڑھ لیا یا سن لیا تو اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ کسی طرح اپنی بدعت کو ثابت کرے اور سنن اربعہ (ابوداود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) کی احادیث کو صحیحین (بخاری و مسلم) کی احادیث پر ترجیح دیتے ہوئے اپنے مذہب اور امام کی حمایت کرے، چنانچہ مقلدینِ مذاہب کے اقوال سے یہ بات بہ خوبی ثابت ہے اور اہلِ تقلید کی ہر کتاب ہمارے اس دعوے پر شاہد ہے۔ قرآن وحدیث میں گمراہ فرقوں کی تردید: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں اہلِ قبور، معتقدینِ اموات اور مقلدینِ مذاہب کے سارے اصول اور مواد کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔ یہ الگ بات