کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 509
علماے متقین کی ایک جماعت کا عین الیقین میں کچھ اس طرح کا رتبہ ہو جاتا ہے گویا ان کا ایمان محسوس ہے، جس طرح کہا گیا ہے: ’’لوکشف الغطا ما ازددت یقینا‘‘ [اگر (غیب کا) پردہ اٹھا دیا جائے تو میرے یقین میںاضافہ نہیں ہو گا] ان کے سامنے غیب عین کے مانند ہو جاتا ہے۔ قیامت کے دن ان کی رویت کا رتبہ اور بھی زیادہ ہو جائے گا، اس رتبے سے کہیں بڑھ کر جو انھیں دنیا میں حاصل تھا۔ اے رویت کے منکر میرے بھائی! جو بات تیری سمجھ میں آئی ہے وہ اس طرح نہیں ہے جہاں تیرا فہم پہنچا ہے، کیونکہ تو نے یہی سمجھا ہے کہ جب رویت ہوتی ہے تو وہ لمعاتِ شعاع کے واسطے سے ہوتی ہے جو نظر سے اٹھتے ہیں اور اس میں اعتدالِ مسافت اور ہواے شفاف کا ہونا شرط ہے۔ حالانکہ یہ فن جسے تو نے سمجھا ہے عالم شہادات وملک سے ہے۔ قیامت کے دن عین وحدقہ اس طبیعتِ دنیا پر باقی نہ رہے گا، بلکہ قدرت حکمت کی طرف، حکمت قدرت کی طرف، قلب عین کی طرف اور عین قلب کی طرف متحرک ہو گی۔ اسی طرح ہوا وشعاع اور الوان و اکوان تیری فہم مالوف اور معہود کے خلاف ہوں گے۔ زمین آسمان سب بدل جائے گا۔ واحد قہار بارز ہو گا۔ اے ملک وشہادت کے عالم میں محصور! تو ملکوت اور غیب کی طرف بارز ہو اور منقعر جہات اور ادوات وآلات سے اوپر کو چڑھ۔ میں اس پر ایمان لایا ہوں کہ مومن اللہ جل وعلا کو دیکھیں گے۔ کفار اس کی رویت سے محجوب ہوں گے۔ جس طرح قرآن مجید نے خبر دی ہے۔ اس کی صحت پر دلیل واضح اور برہان ساطع قائم ہے۔ مخلوق رویت میں مراتبِ عبودیت اور منازلِ قرب کے تفاوت کے مطابق متفاوت ہو گی۔ رویت میں انبیا کا رتبہ اور ہو گا، اولیا کا اور عوام مومنوں کا اور۔ وہاں بصر وبصیرت کی رویت دونوں شریک ہوں گی۔ ایک طبیعت اور صفت ہو جائیں گی۔ آخرت میں اولیا اس طرح دیکھیں گے جس طرح انبیا دنیا میں دیکھتے ہیں۔ پھر اسی نہج پر نبوت ورسالت کے مراتب رویت میں متفاوت ہوں گے۔ خواص انبیا اس طرح دیکھیں گے جس طرح ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں دیکھا تھا۔[1] رویت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ سب سے زیادہ ہو گا۔ یوں لگتا ہے جیسے اسی رتبے کا نام مقام
[1] شبِ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا۔ اس کی ضروری تفصیل اور مختصر دلائل گذشتہ صفحات میں بیان ہو چکے ہیں۔