کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 506
’’الاستواء معلوم، و الکیفیۃ مجہولۃ، والإیمان بہ واجب، والسؤال عنہ بدعۃ‘‘ [استوا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے] وضاحت اور صلح کی تمہید کے لیے میں یہ بات کہتا ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میرا قصد وارادہ اصلاح ہے اور اکمل عبادات یہی آپس کی اصلاح ہوتی ہے۔ اس کے ایضاح کے لیے سلف سے نقل کرنے کی کوئی حاجت وضرورت نہیں ہے۔ سلف نے تفسیرِ استوا میں استقرار کی تصریح کی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ زمن نبوی اور زمانہ رسالت کے بعد لوگوں کے باطنی حالات ایک صفت پر قائم نہ تھے، بلکہ ایک دوسرے کی نسبت کچھ لوگ علم و فہم اور استعداد میں اکمل تھے۔ اسی اختلافِ استعدادات کی وجہ سے دعوت کے مراتب بھی متنوع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ﴾[النحل: ۱۲۵] [اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ، اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کرو جو سب سے اچھا ہے] لسانِ حکمت صالح باطن والوں کے لیے دعوت کا ایک رتبہ ہے، لسانِ موعظت دوسرے بواطن صالحہ کے لیے ایک رتبہ ہے اور مجادلہ اوروں کے لیے ایک رتبہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات چیت فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور باطن صافی سے ان کے بواطن پر اشراف رکھتے تھے۔ ہر برتن میں وہی چیز ڈالتے جس کے لائق وہ برتن ہوتا۔ تو اب یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول کے متعلق قول کا اطلاق کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر استوا والی آیت اتری ہے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جتنے بھی سننے والے تھے وہ سب فہم میں برابر نہ تھے، بلکہ بحسب تفاوت وہ متفاوت الفہم تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنوع فہوم باطن پر مطلع ہو کر ہر ذی عقل کو اس کی عقل اور ہر ذی فہم کو اس کے فہم پر مقرر رکھا۔ ایک لونڈی نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایمان وتوحید میں اسی قدر پر اکتفا فرمایا، کیونکہ اس وقت سارے بواطن قبابِ عصمت کے سائے میں تھے۔