کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 505
وہ نادان رہا۔ اب تو مشبہ بن کر اللہ تعالیٰ سے دور نہ ہو، کیونکہ وہ تو تجھ سے قریب ہے اور نہ معطل بن کر اس سے بھاگ، کیونکہ وہ تیرے نزدیک ہے۔ استوا کو مطلق تسلیم کر لو اور اس کی کیفیت سے اعراض کرو۔ اسی طرح بقیہ تمام صفات کے ساتھ بھی عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ان اخبار کے ساتھ بندوں کے لیے تجلی کی، اس لیے وہ ظاہر ہے۔ عقول اس کے ادراک وکنہ سے قاصر رہے، اس لیے وہ باطن ہے۔ جن لوگوں نے ان صفات کے بیان میں تصرف کیا، وہ اس اعتبار سے ماجور ہیں کہ اس سے ان کا قصد وارادہ توحید ہے، لیکن اس اعتبار سے وہ ماخوذ ہیں کہ منہج قدیم سے انھوں نے عدول و اعراض کیا ہے اور تشبیہ یا تعطیل کی طرف گئے ہیں۔ اس لیے تو خواہش اور عصبیت کو چھوڑ کر ترشی کے بغیر اپنے فکر کی طرف رجوع کرو اور اپنے نفس ودین سے متعلق اللہ جل وعلا سے ڈرو۔ حنبلی بھائی! تیرا جو اشعری بھائی تاویل کی طرف گیا ہے وہ تشبیہ اور تمثیل کے وہم کے سبب اس طرف گیا ہے کہ مبادا کہیں تشبیہ وغیرہ اس کے باطن میں مل جائے۔ اگر وہ مجرد استوا کو تسلیم کر لیتا تو اسے اس تاویل کی کچھ حاجت نہ ہوتی۔ اس نے تشبیہ کے خوف سے یہ کام کیا ہے۔ اے اشعری بھائی! تیرا یہ حنبلی بھائی نفی اور تعطیل سے ڈر گیا ہے، اس لیے اس نے اتنا مبالغہ و اصرار کیا اور استقرار کا ایک مخامرہ خفیہ ہو گیا، لہٰذا تم دونوں کو آپس میں صلح کر لینا چاہیے۔ حنبلی اپنے باطن سے مخامرہ خفیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کے مطابق دور کر دے، اس سے ایمان بالاستوا فوت نہ ہو گا۔ اشعری تشبیہ کا خوف دور کر کے تاویل پر نہ ڈٹا رہے۔ مجرد استوا کا اعتراف کرنا اسے کچھ نقصان نہ دے گا۔ پھر یہ دونوں اثبات، غیر تشبیہ اور نفی بلا تعطیل کے قائل ہو جائیں اور یوں کہیں: ’’آمنا بما قال اللّٰہ تعالیٰ علی ما أراد اللّٰہ ویلیق باللّٰه، وآمنا بما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وبارک وسلم‘‘ [ہم اس پر ایمان لائے جو اللہ تعالیٰ نے کہا اور اس طرح ایمان لائے جو اللہ نے ارادہ کیا اور جو اللہ تعالیٰ کے لائق ہے۔ نیز ہم اس پر ایمان لائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس طرز پر ایمان لائے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا] کیونکہ ان اسرار کا علم اللہ ورسول کے سپرد ہے۔ کسی نے کیا اچھی بات کہی ہے: