کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 501
اس نے اس ارادے کے ساتھ اپنے نفس مقدس کا وصف بیان کیا ہے، ہم بھی اسے اسی وصف کے ساتھ بولتے ہیں: ﴿ اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْئٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ﴾[النحل: ۴۰] [ہمارا کہنا کسی چیز کو، جب ہم اس کا ارادہ کر لیں، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ ہم اسے کہتے ہیں ہو جاتو وہ ہوجاتی ہے] نیز اس نے فرمایا: ﴿ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّھُمَا﴾[الکھف: ۸۲] [تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں] صفتِ سماعت و بصر: اس کی پانچویں صفت سمع ہے۔ وہ سمیع الندا اور مجیب الدعا ہے۔ وہ ضمیر کی ندا کو تعبیر بیان اور تفسیر جنان کے بغیر سنتا ہے۔ ایک کا سننا اسے دوسرے کے سننے سے باز نہیں رکھتا۔ آوازیں اس پر مشتبہ ہوتی ہیں نہ مسائل اسے مغالطے میں ڈالتے ہیں اور نہ لغات اس پر مختلف ہوتے ہیں۔ وہ پرندوں کے پر کی آواز، پتھروں کے شکم میں کیڑوں کے چلنے کی آہٹ اور قعرِ دریا میں مچھلیوں کی ندا سنتا ہے۔ اس کی چھٹی صفت بصر ہے۔ وہ کالی راتوں کے اندھیرے میں سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی کے چلنے کو دیکھتا ہے۔ تاریک شب میں حشرات کی حرکات کو جوش وخروش کی حالت میں نظر میں رکھتا ہے۔ اس نے سمع و بصر کے ساتھ اپنے نفس کا وصف بیان کیا ہے۔ چنانچہ اس کا فرمان ہے: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے] صفتِ کلام: اس کی ساتویں صفت کلام ہے۔ وہ کلامِ قدیم کے ساتھ متکلم ہے۔ فصحا اس طرح کے کلام لانے سے عاجز وقاصر رہے۔ کیا مجال ہے کہ بلغا ویسی ایک آیت بھی لا سکیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ﴾ [فصلت: ۴۲]