کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 499
صفاتِ الٰہیہ اور اسماے حسنی کا تذکرہ: اللہ تعالیٰ کے لیے اسماے حسنی اور صفات علیا ثابت ہیں۔ ہم اس کا صرف وہی نام رکھتے ہیں جو خود اس نے اپنا نام رکھا ہے اور ہم اس کا کچھ وصف بیان نہیں کرتے، مگر وہی جس کے ساتھ اس نے اپنا وصف بیان کیا ہے۔ اسماے حسنی میں سے ہر نام اس کی صفات میں سے ایک صفت کی خبر دیتا ہے اور اس کی ہر صفت اس کے آثارِ ربوبیت سے ایک اثر ہے جس کے مناسب عبودیت مطلوب ہے۔ یہ ذاتی صفاتِ کمال ذاتِ مقدس کے لوازم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کا اس لیے ذکر کیا ہے، تا کہ ہم اسے جانیں اور سمجھیں۔ اگر وہ ان کا علم نہ دیتا اور نہ سمجھاتا تو زبان کی کیا ہستی تھی کہ وہ ان کو بیان کر سکتی؟ صفتِ حیات و قدرت: اس کی ایک صفت حیات ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ ھُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ﴾[المؤمن: ۶۵] [وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں] یہ حیات سرمدی، دائمی اور ازل سے ابد تک مستمر ہے، وہ مددِ عناصر اور معونتِ باطن وظاہر سے بزرگ تر ہے، کیونکہ وہ صمد اور قیوم ہے۔ غایات ونہایات سب اسی کی مخلوق ہیں۔ اس کی دوسری صفت قدرت ہے۔ ساری کائنات اسی کے مقدورات ہیں۔ کوئی چیز اسے عاجز نہیں کرتی ہے۔ کوئی کَوْن اس کی قدرت کے بغیر متکون نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ چاہے تو سارے کون کو عدم کر دے اور اس طرح کا دوسرا کون ایجاد کرے۔ زمین وآسمان اور بر وبحر میں جو کچھ ہے، ان سب کی پیشانی اس کے ہاتھ میں ہے۔ سارے مقدورات اسی کی قدرت سے قائم ہیں اور اسی کے قبضے میں مسخر ہیں۔ ایک حرف ’’کُنْ‘‘ کے ساتھ اس نے ان کو ایجاد کیا ہے۔ اگر وہ چاہے تو ان سب کو فنا کر دے۔ صفتِ علم: اس کی تیسری صفت علم ہے۔ اس کا علم، علم واحد قدیم ازلی کے ساتھ جمیع معلومات کو محیط ہے۔ آسمانوں اور زمینوں میں ایک ذرہ بھی اس کے علم سے غائب نہیں ہے۔