کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 498
ہے کہ ہمارے پاس دلیل موجود ہے، وہ انہی عامیوں کے ساتھ ملحق ہیں، یہاں تک کہ یہ فتنہ عام لوگوں پر محیط ہو گیا ہے۔ نجات کا راستہ یہ ہے کہ بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی طرف سچا احتیاج ظاہر کرے اور آثارِ سلف کی اقتدا کرے۔ 2۔ قلبِ صحیح، عقلِ سلیم اور علمِ راسخ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور علم والوں نے انصاف سے کھڑے ہو کر جس بات کی گواہی دی ہے، وہ بات یہ ہے: ’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ [اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے] اس کا کوئی ضد وند اور شبہ ومثل نہیں۔ کوئی اس کا بیٹا اور باپ ہے نہ کوئی اس کا وزیر اور نظیر۔ تصورات اس کے کنہ کی عظمت کو پاتے ہیں نہ افہام اس کی کبریائی تک پہنچتے ہیں۔ اس کی ذات مقدس کو تغیر، آلام، اسقام، اونگھ، منام، افتراق اور المام نہیں پہنچ سکتے۔ وہ وسواس، حواس، قیاس، خیال، مثال، زوال، انتقال، لحوقِ فکر اور حصرِ ذکر سے جلیل وعظیم ہے۔ وہ ازلی قیوم اور سرمدی دیموم ہے۔ ’’متیٰ‘‘ کے ساتھ اس کی ازلیت محدود ہو سکے نہ ’’حتی‘‘ کے ساتھ اس کی ابدیت متقید ہو سکے۔ اس پر تعیین کا انطباق درست نہ تائین کو اس تک راہ ہے۔ وہ زمان ومکان سے بری ہے۔ اس کی عظمت کی نسبت سارے عوالم بنسبت سارے عالم کے رائی کے ایک دانے سے بھی کم تر اور حقیر ہیں۔ اب دل کو اس قیاس سے خالی کرنا چاہیے کہ وہ داخل عالم ہے یا خارج عالم۔ توکیا اور تیرا علم کیا۔ اگر تیری بصیرت کی آنکھ کھلے تو تجھے اپنے اس قیاس، فکر، وہم اور خیال سے شرم دامن گیر حال ہو۔ اے برتر از خیال وقیاس وگمان ووہم و ز ہرچہ گفتہ ایم ونوشتیم وخواندہ ایم [اے وہ ذات جو خیال، قیاس، گمان اور وہم سے برتر ہے اور ہر اس چیز سے بھی جو ہم نے کہی ہے، لکھی ہے اور پڑھی ہے] مجلس تمام گشت و بہ پایاں رسید عمر ماہمچنا در اول وصف تو ماندہ ایم [مجلس برخاست ہو گئی، عمر انتہا کو پہنچ گئی اور ہم ابھی تک تیرے پہلے وصف میں پڑھے ہوئے ہیں]