کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 495
کا دعوی نہیں کرتے تھے، بلکہ ہمیشہ حق تعالیٰ کی بے پروائی کے خوف وہیبت سے ترساں، لرزاں، گریاں اور بریاں رہتے تھے۔ خیریت خاتمہ کی یہی علامت ہے نہ یہ کہ نسبِ سیادت پر فخر اور حسنِ خاتمہ پر مباہات کرے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ایک غرور ہے، حالانکہ مخلصین خطرِ عظیم پر ہیں تو پھر اوروں کی وہاں کیا ہستی ہے۔ کتاب وسنت اور اجماع نے ہر مومن کی عاقبت و خاتمت کو مبہم رکھا ہے، وہ سادات ہوں یا غیر سادات۔ اب جو کوئی اپنی خیریتِ اختتام کا دعوی کرے تو اسے گویا شریعت کے ساتھ خصومت اور دشمنی ہے۔ مگر جو بات شرع میں ثابت نہیں ہے، کوئی مومن اسے قبول نہیں کرے گا۔ ابراہیم خلیل علیہ السلام نے باپ کے مسلمان ہونے کے لیے بہت سعی کی اور بڑا اہتمام فرمایا لیکن کچھ نہ ہوا۔ حدیث میں آیا ہے: (( اَلْمُؤمِنُ یَریٰ ذَنْبَہٗ کَالْجَبَلِ یَقَعُ عَلَیْہِ وَالْمُنَافِقُ یَریٰ ذَنْبَہٗ کَالذَّبَابِ یَطِیْرُ مِنْہٗ )) [1] أَوْ کَمَا قَالَ صلي الله عليه وسلم ۔ [مومن اپنے گناہ کو یوں سمجھتا ہے جیسے پہاڑ اس پر گرا چاہتا ہے اور منافق اپنے گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتا ہے جو اس پر سے اڑ جاتی ہے یا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادِ فرمایا] کسی نے کیا خوب کہا ہے: ’’وجودک ذنب لا یقاس بہ ذنب‘‘ [تیرا وجود ہی گناہ کا پیکر ہے جس پر کسی گناہ کو قیاس نہیں کیا جا سکتا] انساب تو صرف دنیاوی تعارف کے لیے ہیں اور آخرت کی کرامت وعزت تو صرف تقوی و طہارت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾[الحجرات: ۱۳] [بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے] نیز فرمایا: ﴿فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی﴾[البقرۃ: ۱۹۷] [بے شک زادِ راہ کی سب سے بہتر خوبی(سوال سے) بچنا ہے ] مزید فرمایا:
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۹۴۹) الفاظ مختلف ہیں۔