کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 485
صوفیہ بھی ان کے اجماع پر قائم ہیں، جن احکام میں ان کا اختلاف ہے، وہاں پر صوفیہ احسن اور اولیٰ کو اختیار کرتے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَبَشِّرْ عِبَادِ *الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ﴾[الزمر: ۱۷، ۱۸] [سو میرے بندوں کو بشارت دے دے۔ وہ جو کان لگا کر بات سنتے ہیں، پھر اس میں سب سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں] اسی جگہ سے یہ بات لی گئی ہے کہ طریقت شریعت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے اس کے علاوہ یہ کوئی اور چیز نہیں ہے۔ صوفیہ مذکورہ بالا دو گروہوں کے فروعی اختلاف کے منکر نہیں ہیں، کیونکہ علما کا اختلاف رحمت ہے۔ کسی صوفی سے پوچھا گیا کہ وہ کون سے اہلِ علم ہیں جن کا اختلاف رحمت ہے؟ اس نے جواب دیا: ’’ہم المعتصمون بکتاب اللّٰہ تعالیٰ، المجاھدون في متابعۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المقتدون بالصحابۃ‘‘ [جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنے والے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں مجاہدہ کرنے والے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اقتدا کرنے والے ہیں] دین کی فروع میں اختلاف رحمت ہے اور اصولِ دین میں بدعت اور ضلالت۔[1] صفاتِ الٰہیہ کا بیان: اصل اعتقاد کا بیان یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی جب کہ ان میں سے نجات پانے والا صرف ایک گروہ ہو گا۔ پوچھا گیا: وہ کون سا گروہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ )) [2] [جو میرے اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر گامزن ہو گا] یعنی وہ گروہ اہلِ سنت وجماعت کا گروہ ہے۔
[1] اختلاف و افتراق بہر حال مذموم ہے خواہ وہ اصول میں ہو یا فروع میں، کیوں کہ قرآن و سنت میں ہمہ جہتی اختلاف کی ممانعت ہے اور اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اختلاف کے رونما ہونے کے بعد ہر مسلمان کے لیے امرِ الٰہی ہے: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ [النساء: ۵۹] [2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۴۱)