کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 484
سترھویں فصل کتاب ’’سبع سنابل‘‘ مولفہ میر عبد الواحد بلگرامی رحمہ اللہ کے مطابق مذاہبِ صوفیہ صافیہ رحمہم اللہ کے عقائد کا بیان علماے کرام کے، جو انبیا ءعلیہم السلام کے وارث ہیں، تین گروہ ہیں: 1۔اصحابِ حدیث، 2۔فقہا، 3۔صوفیہ۔ اصحابِ حدیث نے کتاب اللہ کے ساتھ اعتصام کرنے کے بعد ظاہر حدیث کا مذہب اختیار کیا ہے اور یہی علم دینِ اسلام کی اساس ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا﴾[الحشر: ۷] [اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ] ان اصحابِ حدیث کا شغل یہ ہے کہ یہ حدیث کو سنیں، نقل کریں، لکھیں، صحیح وسقیم میں تمییز کریں اور آحاد، مشہور اور متواتر احادیث میں فرق کریں۔ احادیث کو کتاب اللہ سے موافقت بخشیں۔ پس یہ گروہ دین کا نگاہ بان ہے۔ فقہانے علومِ اصحابِ حدیث کے استیفا کے بعد ایک اور خصوصیت اور فضلیت حاصل کی ہے کہ وہ حدیث سے فقہ کا استنباط کرتے ہیں اور دقائقِ نظر کے ساتھ حقائق حدیث کو دریافت کر کے احکام وحدود کی ترتیب اور ناسخ ومنسوخ، مطلق ومقید، مجمل ومفسر، خاص وعام اور محکم ومتشابہ کی تمییز عمل میں لاتے ہیں۔[1] یہ لوگ حکام دین اور اَعلام شرع مبین ہیں۔ ان کا اجتہاد ایک شرعی اصل ہے۔ معتقدات اور قبولِ علوم میں طائفہ صوفیہ ان دونوں گروہوں کے ساتھ متفق ہے۔ معانی ورسوم دونوں میں ان کے مخالف نہیں ہیں۔ جن احکام میں ان دونوں گروہوں کا اجماع ہے
[1] ائمہ محدثین حفظِ حدیث اور تدوینِ سنت کے ساتھ ساتھ فقہ الحدیث اور اس سے متعلق دیگر علوم میں بھی یدِطولیٰ رکھتے ہیں جیسا کہ ان کی ترتیب شدہ مصنفات سے عیاں ہے۔ کیوں کہ ان کی مولفات میں احادیث سے فقہی مسائل کا استنباط، ناسخ و منسوخ اور دیگر تمام علوم کی معرفت بہ آسانی ممکن ہے، البتہ وہ ایسی خود ساختہ ’’فقہ‘‘ سے یقینا بے زار ہوتے ہیں جس میں آراء الرجال اور قیل وقال کی کثرت اور دور از کار فرضی مسائل کا ذخیرہ ہوتا ہے۔