کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 473
7۔ ترمذی میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (( اِرْحَمُوْا مَنْ فِيْ الْأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِيْ السَّمَائِ )) [1] [تم اہلِ زمین پر رحم کرو، تم پر عرش بریں والا رحم کرے گا] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ 8۔ مسند شافعی میں جمعہ کے فضائل کی بابت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے: (( وَھُوَ الْیَوْمُ الَّذِيْ اسْتَویٰ فِیْہِ رَبُّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلَی الْعَرْشِ )) [2] [اور یہی ہے وہ دن جس میں تیرا رب تبارک وتعالیٰ عرش پر مستوی ہوا] 9۔ ابن ماجہ میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے: (( فَإِذَا الرَّبُّ قَدْ أَشْرَفَ عَلَیْھِمْ مِنْ فَوْقِھِمْ )) [3] [ناگہاں رب تعالیٰ نے انھیں ان کے اوپر سے جھانکا] 10۔ صحیح بخاری میں شفاعت کی بابت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے: (( فَأَدْخُلُ عَلٰی رَبِّيْ وَھُوَ عَلٰی عَرْشِہٖ )) [میں اپنے رب تعالیٰ پر داخل ہوں گا جبکہ وہ اپنے عرش پر ہو گا] بخاری میں بعض جگہ یہ الفاظ ہیں: (( فَأَسْتَاذِنُ رَبِّيْ فِيْ دَارِہٖ )) [4] [میں اپنے رب تعالیٰ سے اس حال میں اجازت مانگوں کا جب وہ اپنے دار (گھر) میں ہو گا] 11۔ اللہ تعالیٰ کا ہر رات آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرمانا ثابت ہے۔[5] غرض کہ اس باب میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن کا استقصا اور احاطہ کرنا اس مختصر سی تحریر میں دشوار ہے، اس کی بسط وتفصیل کسی اور مقام پر بیان ہو گی۔ انتھیٰ۔ میں کہتا ہوں: استوا کے مسئلے پر میری اردو کتاب ’’الاحتواء علی مسئلۃ الاستوائ‘‘ اور
[1] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۹۴۱) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۹۲۴) [2] مسند الشافعي (۳۰۸) اس کی سند میں ’’ابراہیم بن محمد‘‘ متروک راوی ہے۔ [3] سنن ابن ماجہ (۱۸۴) اس کی سند میں ’’الفضل بن عیسی الرقاشي‘‘ راوی سخت ضعیف ہے۔ [4] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۰۰۲) [5] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۰۹۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۷۵۸)