کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 469
طریقہ اللہ ہی جانتا ہے کوئی اور کیا جانے، اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات و صفات میں مخلوقات کے مشابہ ہونا محال ہے کلام اللہ کا طریقہ: یہ گمان کرنا کہ کلام کا جو طریق حیوانات میں معروف ہے اسی میں منحصر ہے، ٹھیک نہیں ہے۔ اسی گمان نے بہت سے لوگوں کو تاویل کے ورطۂ ہائلہ میں ڈال کر ساحلِ نجات سے دور لے جا کر اضطراب کے گرداب میں غرق کر دیا ہے۔ ساحلِ نجات یہ ہے کہ جو کچھ کتاب وسنت میں آیا ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ پتھر، سنگریزے اور درخت کا تسبیح پڑھنا اور تکلم کرنا، جو منجملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے ہیں، تکلم کے غیر معروف طریق پر تھا۔ پس اگر اللہ تعالیٰ، جو ہر چیز پر قادر ہے، معروف طریقے سے بے نیاز ہو کر کلام فرمائے تو اس میں کیا محال لازم آتا ہے۔ کتب اشاعرہ میں یہ جو کلام نفسی مذکور ہے، کتاب وسنت سے اس کی بو تک محسوس نہیں ہوتی ہے۔ اور اس کے اور اللہ تعالیٰ کی صفت علم کے مابین بجز اعتباری فرق کے تمییز کرنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا بیان: اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے۔ عرش اور اس کے آس پاس کی سب چیزیں اس کے ہاتھ میں یوں ہی ہیں جس طرح ایک شخص کے ہاتھ میں رائی کا دانہ ہوتا ہے۔ اس کا علم بلند اور پست ہر قسم کی موجودات کو محیط ہے۔ جو کچھ ہو چکا یا جو آئندہ ہو گا سب اس کے احاطے میں ہے، چنانچہ اس نے خود کتابِ محکم میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۵] [وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا] اللہ تعالیٰ کے عرش پر استوا کا ذکر قرآن مجید میں سات جگہ آیا ہے۔ اصل تو یہ ہے کہ جو چیز جس طرح پر وارد ہے اور قرآن میں آئی ہے اسے اسی طرح پر اعتقاد کرنا چاہیے، اس کی تاویل نہ کرنا چاہیے اور اسے اس کی صورت سے پھیرنا نہ چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا﴾[الطلاق: ۱۲] [اللہ نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے]