کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 463
احاطے قرب اور معیت کے معنی کو نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں۔ اسی طرح اس کا عرش پر مستوی ہونا، مومن کے دل میں سمانا ،آخری رات آسمان دنیا پر اترنا، جیسا کہ احادیث ونصوص میں آیا ہے، اسی طرح ہاتھ اور منہ جس کے متعلق نصوص ناطق ہیں، سب پر ایمان لانا چاہیے۔ انسان ان کو ظاہری معنی پر محمول کرے اور ان کی تاویل میں نہ پڑے، بلکہ ان کی تاویل و توجیہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے، تا کہ غیر حق کو حق نہ سمجھ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات وافعال میں سواے جہل وحیرت کے بشر کو کچھ حصہ نہیں ہے، بلکہ ملائکہ کو بھی کچھ نصیب نہیں۔ نصوص کا انکار کرنا کفر ہے اور ان کی تاویل جہلِ مرکب۔ دور بینانِ بارگاہِ الست غیر ازیں پَے نبردہ اند کہ ہست [دوربین بارگاہِ الست میں (وہ مجلس جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیا: ﴿الست بربکم﴾[کیا میں واقعی تمھارا رب نہیں ہوں؟]) ہست (لوگوں کا اللہ کے سوال کے جواب میں یہ کہنا ﴿بلیٰ شھدنا﴾[کیوں نہیں؟ ہم نے شہادت دی]) کے سوا کوئی جواب نہیں دیتے] اللہ تعالیٰ کے قرب ومعیت کی ایک اور قسم بھی ہے جس کی پہلی نوع کے قرب و معیت سے محض نام میں مشارکت ہے اور وہ قرب و معیت خاص بندوں، جیسے ملائکہ، انبیا اور اولیا کو نصیب ہے۔ عام مومن بھی اس طرح کے قرب سے محروم نہیں ہیں۔ اس قرب کے درجات بے انتہا ہیں، وہ کسی حد پر نہیں ٹھہرتے ہیں۔ مولانا روم فرماتے ہیں: ای برادر بے نہایت در گہی ست ہرچہ بر وے می رسی بر وے ما یست [اے بھائی! اس کے قرب کے مراتب بے شمار ہیں، جسے قرب کا جو درجہ حاصل ہو گیا وہی اس کے لائق ہے] جو خیر و شر وجود میں آتا ہے اور بندہ جس کفر، ایمان، طاعت اور عصیان کا مرتکب ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہے، لیکن حق تعالیٰ کفر و معصیت سے خوش نہیں ہے، بلکہ اس نے کفر و معصیت پر عذاب مقرر فرمایا ہے۔ طاعت وایمان پر وہ راضی ہے جس پر اس نے ثواب کا وعدہ کیا ہے، لہٰذا ارادہ اور چیز ہے اور رضا ایک اور چیز۔