کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 458
فمن أوجب خلاف ذلک بعدہم فقد خالف سبیلہم‘‘[1]انتھی۔ [نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ تصریح ثابت نہیں ہے کہ متشابہات میں سے کسی چیز کی تاویل کرنا واجب ہے اور نہ اس بات کی تصریح منقول ہے کہ ان کا ذکر منع ہے۔ کیوں کہ یہ بات ویسے ہی محال ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر اس چیز کی تبلیغ کا حکم دے، جو اس کی طرف اس کے رب تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی اور اس پر یہ آیت بھی نازل کرے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾[المائدۃ: ۳] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس باب کو ترک کر دیں اور اس بات کی تمییز ہی نہ کریں کہ کس چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا جائز ہے اور کس چیز کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے، باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر تبلیغ پر برانگیخت کیا تھا: (( لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ)) حتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، احوال اور وہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیا گیا اسے نقل کیا ہے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ وہ سب اس پر متفق تھے کہ ان پر اسی طرح ایمان لایا جائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے ارادہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ساتھ اپنے آپ کو مخلوقات کے ساتھ مشابہت دینے سے منع کر دیا ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾پس جس شخص نے ان کے بعد اس کے خلاف کوئی چیز واجب کی تو یقینا اس نے ان کے راستے کی مخالفت کی] میں کہتا ہوں کہ سمع وبصر، قدرت وضحک اور کلام واستوا کے درمیان کچھ فرق نہیں ہے، کیونکہ اہلِ لسان کے نزدیک ان سب کا مفہوم جنابِ قدس تعالیٰ کے لائق نہیں ہے۔ کیا ضحک میں کچھ استحالہ [محال ہونا، کسی چیز کا مشکل ہونا] ہے مگر اسی جہت سے کہ وہ منہ کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح کلام، گرفت اور نزول میں کوئی استحالہ نہیں ہے مگر اسی لحاظ سے کہ یہ دونوں دست وپا کے خواہاں ہیں، یہی حال سمع وبصر کا ہے کہ یہ مستدعی اذن وعین ہیں، واللّٰہ أعلم۔ اس کے بعد شاہ صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’ان خوض کرنے والے لوگوں نے گروہ اہلِ حدیث پر یوں زبان درازی کی کہ انھیں مجسمہ اور مشبہہ کے نام دیے اور کہا کہ وہ عدم کیفیت کا سہارا لے کرچھپے ہوئے ہیں۔ یقینا
[1] فتح الباري (۱۳/۳۹۰)