کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 457
’’قال الأئمۃ: نؤمن کما جاء من غیر أن یفسر أو یتوہم، ھکذا قال غیر واحد من الأئمۃ، منہم سفیان الثوري وما لک بن أنس وابن عیینۃ وابن المبارک أنہ تروی ھذہ الأشیاء ویؤمن بھا ولا یقال کیف‘‘ [ائمہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم (صفاتِ الٰہیہ پر) اسی طرح ان کی تفسیر اور ان کے متعلق کسی وہم میں مبتلا ہوئے بغیر ایمان لاتے ہیں جس طرح وہ صفات وارد ہوئی ہیں۔ یہی مذہب ہے کئی ایک ائمہ کرام رحمہم اللہ کا جن میں سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن عیینہ اور ابن المبارک رحمہم اللہ شامل ہیں کہ اس طرح کی چیزوں کو روایت اور بیان کیا جائے اور ان پر ایمان لایا جائے، مگر یہ نہ کہا جائے کہ وہ کیسے ہیں] امام ترمذی رحمہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے: ’’إن إجراء ھذہ الصفات کما ھي لیس بتشبیہ، وإنما التشبیہ أن یقال سمع کسمع وبصرکبصر‘‘[1] [ان صفاتِ (الٰہیہ) کو اسی طرح جاری کرنا جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں، یہ تشبیہ نہیں ہے۔ تشبیہ تو یہ ہے کہ کہا جائے کہ اس کا سننا دوسروں کے سننے اور اس کا دیکھنا دوسروں کے دیکھنے کی طرح ہے] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لم ینقل عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا عن أحد الصحابۃ من طریق صحیح التصریح بوجوب تأویل شییٔ من ذلک یعني المتشابھات، ولا المنع من ذکرہ، ومن المحال أن یأمر اللّٰہ نبیہ بتبلیغ ما أنزل إلیہ من ربہ وینزل علیہ ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ثم یترک ھذا الباب فلا یمیز ما یجوز نسبتہ إلیہ تعالیٰ مما لا یجوز مع حثہ علی التبلیغ عنہ بقولہ: (( لیبلغ الشاھد الغائب )) حتی نقلوا أقوالہ وأفعالہ وأحوالہ وما فعل بحضرتہ فدل علی أنہم اتفقوا علی الإیمان بھا علی الوجہ الذي أراد اللّٰہ تعالیٰ منھا وأوجب تنزیھہ عن مشابھۃ المخلوقات بقولہ: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾،
[1] سنن الترمذي (۳/۵۰)