کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 456
حوا نے اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھا تھا اور یہ شیطان کی وحی تھی۔[1]
یہ شرک کے مقامات و مواضع ہے، جس سے شارع نے منع کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات پر ایمان:
جس طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا واجب ہے، اسی طرح اس کی صفات پر ایمان لانا فرض ہے۔ یعنی انسان اس بات کا معتقد ہو کہ اللہ تعالیٰ صفات علیا کے ساتھ متصف ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور کبریائی کا انکشاف ہوتا ہے۔ سارے آسمانی مذاہب کا صفات کے بیان اور ان عبارات کے استعمال پر جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں اور اس بات پرکہ ان میں زیادہ بحث نہ کریں، اجماع ہے اور خیر القرون اسی پر گزری ہیں۔ پھر مسلمانوں کے ایک گروہ نے ان سے متعلق بحث کی اور کسی نص اور قطعی دلیل کے بغیر ان کے معانی کی تحقیق میں لگ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم مخلوق میں غور وفکر کرو نہ کہ خالق میں۔[2]
اور اس آیت:
﴿وَاَنَّ اِِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی﴾[النجم: ۴۲]
[اور یہ کہ بے شک تیرے رب ہی کی طرف آخر پہنچنا ہے]
کے بارے میں فرمایا کہ رب تعالیٰ کے متعلق کوئی غور وفکر نہ کرنا چاہیے۔ پس اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوقات اور محدثات نہیں ہیں اور ان کے متعلق اسی قدر غور فکر کرنے کی گنجایش ہے کہ ان صفات کے ساتھ حق تعالیٰ کس طرح متصف ہوا ہے اور خالق کے متعلق گویا یہی تفکر ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث: (( یَدُ اللّٰہِ مَلْأَی )) [3] کے بارے میں فرمایا ہے:
[1] مسند أحمد (۵/۱۱) اس کی سند میں موجود راوی ’’عمر بن ابراہیم البصری‘‘ کے متعلق امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لا یحتج بہ‘‘ ’’وہ قابل حجت نہیں‘‘۔ پھر جیسے کہ دوسری سند سے ثابت ہے کہ یہ روایت سمرہ بن جندب پر موقوف ہے مرفوع نہیں ہے، علاوہ ازیں اس کی سند میں حسن بصری رحمہ اللہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔ نیز حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر مذکورہ تفسیر کے خلاف کی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۴/۲۷۴) اگر ان کے ہاں مذکورہ روایت مرفوع ہوتی تو وہ اسے کبھی نہ چھوڑتے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مسند احمد اور سنن الترمذی کی مذکورہ روایت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔
[2] العظمۃ لأبي الشیخ (۵) یہ روایت مرسل ہے۔ دیکھیں: الزھد لھناد بن السري (۹۳۹) ضعیف الجامع (۲۴۷۰)
[3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۹۷۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۹۳)