کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 453
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: عبادت انتہائی درجے کی عاجزی اور انکساری کو کہتے ہیں۔ کسی کی طرف سے یہ انتہائی عاجزی یا تو صورتاً ہوتی ہے جیسے قیام یا سجود کرنا یا ارادتاً جیسے اس فعل سے ایسی تعظیم کی نیت ہو جیسی بندے اپنے مولیٰ (اللہ تعالیٰ) کی تعظیم کرتے ہیں یا جس طرح رعایا بادشاہوں کی یا تلامذہ اساتذہ کی تعظیم کیا کرتے ہیں۔ ان دوصورتوں کے سوا تعظیم کی کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو اور برادرانِ یوسف علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو سجدہ تحیت کیا تھا اور یہ معلوم ہے کہ بلاشبہہ یہ سجدہ تعظیم کی اعلیٰ صورت ہے، لہٰذا یہ بات واجب ٹھہری کہ صرف نیت ہی سے اس کی تمییز ہوگی۔ جو نبی اپنی قوم میں مبعوث ہوا، اس نے لازمی طور پر انھیں شرک کی حقیقت سمجھائی اور ان دونوں درجوں میں تمییز کر کے بتائی۔ پھر وہ لوگ جو شرک کے مرض میں مبتلا تھے، وہ کئی طرح پر تھے۔ ان میں سے ایک وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے جلال اور بزرگی کو بالکل بھول گئے اور انھوں نے شرکا کے سوا کسی کو نہ پوجا، انھوں نے اپنی ہر حاجت انھیں کے سامنے پیش کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سرے سے کوئی التفات اور توجہ نہ کی، اگرچہ یقینی دلیل سے وہ یہ بات جانتے تھے کہ سلسلہ وجود کی انتہا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔ کسی نے یہ اعتقاد کیا کہ سید و مدبر اللہ تعالیٰ ہے، لیکن کبھی وہ اپنے کسی بندے کو خلعتِ شرف دے کر بعض خاص امور میں اسے متصرف کر دیتا ہے اور اپنے بندوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول فرماتا ہے، جس طرح ملک الملوک اقطار ارض میں اپنی طرف سے ایک ایک بادشاہ مقرر کر کے بڑے بڑے امور کے سوا ملک کی تدبیر اس کے سپرد کر دیتا ہے، اس لیے اس کی زبان ان کو اللہ کے بندے کہنے سے لڑکھڑاتی ہے، ناچار وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتا ہے۔ پھر وہ اس سے بھی عدول وانحراف کر کے ان کا نام ’’أبناء اللّٰہ ‘‘ اور ’’أحباء اللّٰہ ‘‘ رکھتا ہے اور اپنے آپ کو ان کا بندہ کہنے لگتا ہے جیسے عبد المسیح اور عبدالعزیٰ وغیرہ۔ جمہور یہود ونصاریٰ، مشرکین اور امتِ اسلام کے بعض غالی قسم کے منافقوں کا اب تک یہی مرض ہے۔ چونکہ شریعت کی بنا اس پر ہوا کرتی ہے کہ شبہ کی چیز کو بجائے اصل کے قرار دیں۔ اسی لیے اشیاے محسوسہ کو، جن میں شرک کا گمان تھا، کفر ٹھہرایا ہے، جیسے بتوں کو سجدہ کرنا، ان کے لیے قربانی کرنا اور ان کے نام کی قسم کھانا وغیرہ۔الغرض شرک کی حقیقت یہ ہے کہ انسان بعض ان لوگوں میں، جن کی تعظیم کی جاتی ہے، صادر ہونے والے آثارِ عجیبہ کو یہ اعتقاد کر کے کہ ان آثار کا