کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 447
متفاوت ہوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام وجوہ سے حدوث اور تجدد سے بری ہے۔ وہ جوہر ہے عرض ہے اور نہ جسم ہے۔ وہ حیز میں ہے اور نہ کسی جہت میں۔ یہاں اور وہاں کے الفاظ سے اس کی طرف اشارہ نہیں ہو سکتا۔[1] حرکت وانتقال اس پر وارد ہوتے ہیں اور نہ اس کی ذات وصفت میں تبدل یا جہل یا کذب آتا ہے۔ وہ عرش کے اوپر اسی طرح ہے جس طرح اس نے اپنے نفس کا وصف بیان کیا ہے، لیکن اس کا عرش کے اوپر ہونا تحیز وجہت کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس تفوق اور استوا کی حقیقت صرف اللہ تعالیٰ اور وہ لوگ جانتے ہیں جو علم میں راسخ ہیں اور جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے علم دیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مومنوں کو سر کی آنکھوں سے دو طرح پر نظر آئے گا۔ ایک یہ کہ ان پر ایک تام اور بلیغ انکشاف ہو گا جو نری عقلی تصدیق سے زیادہ ہے، تو گویا یہ آنکھ ہی سے دیکھنا ہوا، مگر یہ رویت آمنے سامنے ہونے جہت، رنگ اور شکل کے بغیر ہو گی، چنانچہ معتزلہ وغیرہ رویت کی اس صورت کے قائل ہیں۔ پس یہ حق ہے اور معتزلہ کی خطا صرف اتنی بات میں ہے کہ وہ رویت کی تاویل صرف اسی معنی کے ساتھ کرتے ہیں یا یوں کہیے کہ وہ رویت کو اسی معنی
[1] بارہا گزر چکا ہے کہ یہ الفاظ متکلمین کے تراشے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سلفِ امت اہلِ حدیث کو ان الفاظ کے استعمال سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ لوگ نہ جوہر کو جانتے ہیں نہ عرض کو پہچانتے ہیں۔ وہ تو تنزیہ کے لیے صرف: ﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ * اَللّٰہُ الصَّمَدُ * لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ * وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ} اور ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ [الشوریٰ: ۱۱] پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ہاں ’’جہت‘‘ کا لفظ صراحتاً کسی دلیل میں نہیں آیا ہے، اسی وجہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس لفظ کے استعمال سے منع کیا اور اس لفظ کو بدعت قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ علو، فوق اور استوا کے الفاظ کتاب و سنت میں ثابت ہیں، جن سے ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے جہتِ علو ثابت ہوتی ہے۔ گو اللہ تعالیٰ کی طرف اینجا اور آنجا جیسے الفاظ کے ساتھ اشارہ نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کا مکان میں ہونا لازم آتا ہے، مگر حدیثِ جاریہ میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے سوال کیا: (( أَیْنَ اللّٰہُ؟ )) [اللہ تعالیٰ کہاں ہیں؟] تو اس نے جواب میں کہا تھا: (( فِيْ السَّمَآئِ )) [آسمان میں] اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایمان والی قرار دیا تھا۔ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے روبرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی کے ذریعے سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: (( اَللّٰہُمَّ اشْھَدْ )) [اے اللہ! گواہ رہنا] یہ حدیث کیف و مکان کے بغیر علو، فوق اور استوا کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے۔ ہمارے لیے اس کی حدود و قیود میں رہنا سلامتی کا موجب ہے اور الفاظ مبتدعہ سے احتراز کرنا لازم ہے۔ واللّٰه اعلم۔ [مولف رحمہ اللہ ]