کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 445
اہلِ زمانہ سے افضل ہیں اور وہ امامت کے ان سے زیادہ حق دار ہیں۔ ایک شبہے کی وجہ سے کہ علی رضی اللہ عنہ نے، عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لیا تھا۔ حاشیۂ قرہ کمال (الدین اسمعیل) میں علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہمارے جن بھائیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی وہ فاسق و کافر نہیں ہیں، کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے اور اس میں شک نہیں کہ خطاے اجتہادی ملامت اور طعن و تشنیع سے بہت دور ہے۔ خیر البشر علیہ السلام کے حقوقِ صحبت کی رعایت کر کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نیکی کے ساتھ یاد کرنا چاہیے اور پیغمبر علیہ السلام کی دوستی کی وجہ سے ان کو دوست رکھنا چاہیے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ أَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّھُمْ وَمَنْ أَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَھُمْ )) [1] [جس نے اُن (صحابہ رضی اللہ عنہم ) کو دوست رکھا، اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اُس نے میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا] یعنی وہ محبت جو میرے اصحاب سے متعلق کی گئی ہے ایسی ہی محبت ہے جیسی مجھ سے متعلق ہے اور اسی طرح وہ بغض جو ان سے تعلق رکھتا ہے، ایسا ہی بغض ہے جیسا کہ مجھ سے کیا جائے۔ ہم کو حضرت امیر(علی رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ جنگ کرنے والوں سے کوئی دوستی نہیں ہے، بلکہ مناسب ہے کہ ہم ان سے بیزار ہوں، لیکن چونکہ وہ سب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، لہٰذا ہم کو اُن کے ساتھ محبت رکھنے کا حکم ہے اور ہم اُن کے ساتھ بغض و ایذار سانی سے روک دیے گئے ہیں۔ اس لیے لازماً ہم بھی پیغمبر علیہ السلام کی دوستی کی وجہ سے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ بغض و ایذا رسانی سے دور رہتے ہیں، کیونکہ ان سے بغض و ایذا کا معاملہ سرور عالم تک پہنچتا ہے، لیکن جو حق پر ہے ہم اس کو حق والا ہی کہیں گے اور مخطی کو مخطی۔ امیر (علی رضی اللہ عنہ )حق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر۔ اس سے زیادہ کہنا فضول ہے۔ انتھیٰ کلام المجدد رضی اللّٰہ عنہ و اللّٰہ أعلم۔ ٭٭٭
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۸۶۲)