کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 443
لیکن زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے منکر کو بلکہ شیخین کی افضلیت کے منکر کے لیے بھی ہم کفر کا حکم نہ لگائیں، البتہ ان کو بدعتی و گمراہ جانیں، کیونکہ ان کی تکفیر میں علما کا اختلاف ہے اور اس اجماع کے قطعی ہونے میں بہت قیل وقال ہے، اس کا منکر بد نصیب یزید کا ساتھی ہے۔ اسی احتیاط کی بنا پر یزید کے لعن طعن کرنے میں توقف کیا ہے۔ وہ ایذا جو پیغمبر علیہ السلام کو خلفاے راشدین کو ایذا رسانی کی جہت سے پہنچی ہے وہ ایسی ہے جیسی حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو ایذا رسانی کی جہت سے پہنچی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِيْ أَصْحَابِيْ لَاتَتَّخِذُوْھُمْ غَرَضاً مِنْ بَعْدِيْ فَمَنْ أَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّھُمْ وَمَنْ أَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَھُمْ وَمَنْ آذَاھُمْ فَقَدْ آذَانِيْ وَمَنْ آذَانِيْ فَقَدْ آذَی اللّٰہَ وَمَنْ آذَی اللّٰہَ فَیُوْشِکُ أَنْ یَّاْخُذَہُ )) [1]
[میرے اصحاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ میرے بعد ان کو نشانۂ ملامت نہ بنانا، جس نے ان کو دوست رکھا۔ اس نے گویا میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے گویا میری دشمنی کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو ایذا دی، اس نے گویا مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی، اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے اللہ تعالیٰ (اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایذا دی، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س سے مواخذہ کرے گا]
اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ﴾
[الأحزاب: ۵۷]
[بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اُن پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہے]
جو کچھ مولانا سعد الدین نے شرح عقائد نسفی میں اس فضیلت کے بارے میں انصاف سمجھا ہے وہ انصاف سے دُور ہے اور جو تردید انھوں نے کی ہے وہ سراسر لا حاصل ہے، کیونکہ علما کے نزدیک یہ بات مقرر ہے کہ اس جگہ افضلیت سے وہ مراد ہے جو خداے جل و علا کے نزدیک کثرت
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۸۶۲)