کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 442
بي وزرا أن أحبہ ثم أخالفہ‘‘[1]
[میں شیخین کو اس لیے فضلیت دیتا ہوں کہ خود علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر اُن کو فضلیت دی ہے، ورنہ میں ان (شیخین) کو کبھی فضیلت نہ دیتا۔ میرے نزدیک یہ گناہ ہے کہ میں اُن سے محبت کا دعوی کروں اور پھر ان کے اقوال کی مخالفت کروں]
یہ سب روایات ’’صواعق محرقہ‘‘[2] سے لی گئی ہیں۔
اب رہی عثمان رضی اللہ عنہ کی علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت تو اکثر علماے اہلِ سنت اس مسلک پر ہیں کہ شیخین کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ افضل ہیں پھر ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ۔ ائمہ اربعہ مجتہدین کا مذہب بھی یہی ہے۔ بعض لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ سے جو توقف نقل کیا ہے، اس کے متعلق قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ امام مالک نے اس توقف سے عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی طرف رجوع کر لیا ہے۔ قرطبی رحمہ اللہ نے کہا کہ ان شاء اللہ یہی اصح ہے۔ اسی طرح وہ توقف جو بعض نے امام اعظم رحمہ اللہ کی اس عبارت سے سمجھا ہے:
’’من علامات السنۃ والجماعۃ تفضیل الشیخین ومحبۃ الختنین‘‘
[اہلِ سنت و الجماعت کی علامت میں سے یہ بھی ہے کہ شیخین کو فضیلت دی جائے اور ختنین (دونوں داماد عثمان و علی رضی اللہ عنہما ) سے محبت کی جائے]
اس فقیر کے نزدیک اس عبارت کے اختیار کرنے میں ایک دوسرا محل ہے کہ حضرات ختنین کی خلافت کے زمانے میں بہت زیادہ فتنے و فساد پیدا ہو گئے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں بہت کدورت پیدا ہو گئی تھی۔ اس لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس بات کو مد نظر رکھ کر ان کے حق میں محبت کا لفظ اختیار کیا ہے اور ان کی دوستی کو علاماتِ اہلِ سنت سے قرار دیا ہے، بغیر اس امر کے کہ کسی قسم کا توقف ملحوظ ہو اور کیسے توقف ہو سکتا ہے، کیونکہ حنفیوں کی کتابیں ایسے مضامین سے بھری پڑی ہیں کہ ان خلفاے راشدین کی فضیلت ان کی ترتیب، ترتیبِ خلافت کے مطابق ہے۔
مختصر یہ کہ شیخین کی افضلیت یقینی ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ کی افضلیت اُن سے کم درجے کی ہے۔
[1] سیر أعلام النبلاء (۹/۵۷۳)
[2] الصواعق المحرقۃ (۱/۱۲۵) اس سے مراد امام شہاب الدین احمد بن حجر الہیتمی المکی کی تصنیف ’’الصواعق المحرقۃ في الرد علی أھل البدعۃ والزندقۃ‘‘ ہے۔