کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 441
ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان کی خلافت کے زمانے میں آپ کے متبعین میں سے ایک جمِ غفیر کے سامنے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ تمام امت میں افضل ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ اس روایت کو اسی (۸۰) سے زیادہ راویوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رافضیوں کا برا کرے، یہ کیسے جاہل ہیں؟[1] امام بخاری نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’خیر الناس بعد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أبوبکر ثم عمر ثم رجل آخر، فقال ابنہ محمد بن الحنفیۃ: ثم أنت فقال: إنما أنا رجل من المسلمین‘‘[2] [نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں پھر ایک اور شخص۔ (اس پر) آپ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ نے کہا کہ پھر آپ؟ (اس پر) علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک فرد ہوں] امام ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ نے علی رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ لوگ مجھے ان دونوں (شیخین) پر فضیلت دیتے ہیں، لہٰذا جو بھی مجھ کو ان پر فضیلت دیتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اس کے لیے وہ سزا ہے جو ایک مفتری کی ہوتی ہے۔[3] دار قطنی نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں جس کو پاؤں گا کہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ پر مجھے فضیلت دیتا ہے تو میں اس کو اتنے کوڑے لگاؤں گا جتنے ایک مفتری کو لگنے چاہیے۔[4] اس قسم کی اور بہت سی روایتیں خود علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کثرت اور تواتر سے آئی ہیں جس میں کسی کو انکار کی مجال نہیں، حتی کہ عبدالرزاق جو اکابر شیعہ سے ہے،[5] کہتا ہے: ’’أفضل الشیخین بتفضیل علی إیاھما علی نفسہ وإلا لما فضلتہما کفی
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۴۶۸) [2] الصواعق المحرقۃ لابن حجر الھیتمي المکي (۱/۱۲۴) نیز دیکھیں: سیر أعلام النبلاء (۱۶/۸۶) [3] تاریخ الإسلام للذھبي (۳/۱۱۵) [4] الصواعق المحرقۃ (۱/۱۲۴) [5] امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی رحمہ اللہ کا شیعہ ہونا درست نہیں، بلکہ وہ اکابر ائمہ اہلِ سنت میں سے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: سیرأعلام النبلاء (۴/۵۶۳)