کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 439
داخل ہے نہ کہ یقین کے درجے میں۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اعمالِ صالحہ کا بجا لانا اس یقین کو جلا بخشتا ہے اور غیر صالح اعمال کا بجا لانا یقین کو مکدر کر دیتا ہے۔ لہٰذا ایمان کی کمی اور زیادتی اعمال کے اعتبار سے اس یقین کو روشن کرنے میں ثابت ہوئی نہ کہ نفسِ یقین میں۔ ایک جماعت جس نے یقین کو جلا یافتہ اور روشن معلوم کیا تو اس نے اس یقین کی نسبت جو جلا یافتہ اور روشن نہیں، زیادت کہہ دیا۔ گویا بعض لوگوں نے غیر متجلی یقین کو یقین ہی نہیں سمجھا، انہی میں سے بعض نے متجلی کو یقین جان کر غیر متجلی کو ناقص کہہ دیا۔ دوسرے گروہ نے جو نظر کی تیزی اور بصیرت رکھتے تھے، دیکھا کہ یہ کمی اور زیادتی یقین کی صفات کی طرف راجع ہے نہ کہ نفسِ یقین کی طرف۔ اس وجہ سے انھوں نے یقین کو غیر زائد اور ناقص کہہ دیا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے دو آئینے جو باہم برابر ہوں، لیکن روشنی اور نورانیت میں تفاوت رکھتے ہوں، جب ایک شخص اس آئینے کو دیکھتا ہے جس میں جلا اور روشنی زیادہ ہے اور وہ نور اور روشنی کی نمایندگی زیادہ کرتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ آئینہ دوسرے آئینے سے زیادہ روشن ہے، کیونکہ دوسرے آئینے میں جلا اور روشنی زیادہ نہیں ہے۔ دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ یہ دونوں آئینے کمی و زیادتی میں برابر ہیں، البتہ فرق صرف جلا کی نمایندگی کا ہے جو ان دونوں کی صفات ہیں۔ پس دوسرے کی نظر صائب ہے، وہ شے کی حقیقت تک رسائی رکھتا ہے اور پہلے شخص کی نظر ظاہر پر ہے، لہٰذا کوتاہ ہے جو صفت سے ذات تک نہیں پہنچی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾[المجادلۃ: ۱۱] [اللہ تم میں ایمان والوں کے اور ان لوگوں کے جن کو علم عطا ہوا ہے درجے بلند کر دے گا] اس تحقیق سے جس کے اظہار کے لیے اس فقیر کو توفیق بخشی گئی، مخالفین کے اعتراضات جو انھوں نے ایمان کے زیادہ اور کم نہ ہونے پر کیے تھے زائل ہو گئے۔ عام مومنوں کا ایمان تمام وجوہ میں انبیا علیہم السلام کے ایمان کے مثل نہیں، کیونکہ انبیا ءعلیہم السلام کا ایمان تمام تر جلا یافتہ و نورانی ہے جو کئی گنا (زیادہ) ثمرات و نتائج رکھتا ہے اُن عام مومنوں کے ایمان کے مقابلے پر جو اپنے اپنے درجات کے فرق کے لحاظ سے بہت سی ظلمتیں اور کدورتیں رکھتا ہے۔ اسی طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان جو وزن میں تمام امت کے ایمان سے زیادہ ہے، اس کو بھی جِلا اور نورانیت کے اعتبار سے سمجھنا چاہیے۔ اور زیادتی کو صفات کاملہ کی طرف منسوب کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ انبیاعلیہم السلام نفسِ انسانیت میں