کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 438
جبکہ تم کہتے ہو کہ دوزخ کا عذاب کافروں کے لیے ہی مخصوص ہے؟ میں کہتا ہوں کہ یہ عذاب اس قاتل کے لیے مخصوص ہے جو قتل کو حلال جانے، کیونکہ قتل کو حلال جاننے والا کافر ہے، جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔ کفر کے علاوہ دوسرے گناہوں کے لیے بھی دوزخ کا عذاب آیا ہے۔ وہ بھی صفاتِ کفر کے شائبہ سے خالی نہیں ہے، جیسا کہ اس گناہ کو معمولی سمجھنا اور اس کے ارتکاب کے وقت بے پروائی کرنا اور شرعی اوامر و نواہی کو بے کار و خوار سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ حدیث میں ہے: (( شَفَاعَتِيْ لِأَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِيْ )) [1] [میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہو گی] دوسری جگہ فرمایا ہے: (( اُمَّتِيْ اُمَّۃٌ مَرْحُوْمَۃٌ لَا عَذَابَ لَھَا فِيْ الْاٰخِرَۃِ )) [2] [میری امت، امت مرحومہ (رحم کی ہوئی) ہے، اس کے لیے آخرت میں عذاب نہیں ہے] نیز فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ﴾[الأنعام: ۸۲] [وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے] بھی اس معنی کی تائید کرتا ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ مشرکوں کے بچوں کے احوال، پہاڑوں پر رہنے والے اور پیغمبروں کے زمانۂ فترت کے مشرکوں کا حال اس مکتوب (مکتوب ۲۵۹) میں، جو میرے فرزند محمد سعید رحمہ اللہ کے نام تحریر ہوا ہے، مفصل مذکور ہو چکا ہے، وہاں ملاحظہ کر لیں۔ ایمان کے کم اور زیادہ ہونے میں علما کا اختلاف ہے۔ امام اعظم کوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الإیمان لا یزید ولا ینقص‘‘ [ایمان زیادہ ہوتا ہے نہ کم]۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یزید و ینقص [ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے] اس میں شک نہیں کہ ایمان سے مراد تصدیق اور یقین قلبی ہے جس میں زیادتی اور کمی کی گنجایش نہیں، لہٰذا جو ایمان کی کمی اور زیادتی کو تسلیم کرے وہ دائرہ ظن میں
[1] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۷۳۹) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۴۳۵) سنن ابن ماجہ (۴۳۱۰) [2] سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۲۷۸)