کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 437
چاہیے کہ آخر کار ایمان کی برکت کی وجہ سے دائمی عذاب سے اسے نجات حاصل ہو جائے گی۔ پس معلوم ہوا کہ اہلِ کفر کے لیے عفو اور مغفرت نہیں ہے، جیسے فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ﴾[النسآئ: ۴۸] [بے شک اللہ اس کو نہیں بخشے گا جس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا] لیکن اگر وہ محض کافر ہے تو عذابِ ابدی اس کے کفر کی جزا ہے اور اگر وہ ذرہ برابر بھی ایمان رکھتا ہے تو اس کی جزا وقتی عذاب ہے۔ باقی تمام کبیرہ گناہوں کو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو بخش دے اور چاہے عذاب دے۔ فقیر کے نزدیک عذابِ دوزخ خواہ وقتی ہو یا دائمی، کفر اور صفاتِ کفر کے ساتھ مخصوص ہے، جیسا کہ آگے تحقیق سے معلوم ہو گا۔ کبیرہ گناہ والے جن کے گناہ توبہ، شفاعت یا صرف عفو و احسان کے ساتھ مغفرت کے قابل نہیں ہوتے یا جن کبیرہ گناہوں کا کفارہ دنیاوی تکالیف یا سختیوں اور سکراتِ موت سے نہیں ہوا، امید ہے کہ ایسے لوگوں میں سے بعض کو قبر کا عذاب کفایت کرے گا اور بعض کے لیے قبر کی سختی کے باوجود قیامت کا خوف اور اس دن کی تکالیف کافی ہوں گی اور ان کے گناہوں میں سے کوئی گناہ باقی نہیں چھوڑیں گی جس کی وجہ سے دوزخ کے عذاب کے مستحق ہوں۔ چنانچہ آیتِ کریمہ: ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ﴾[الأنعام: ۸۲] [وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے] اسی مضمون کی تائید کرتی ہے، کیونکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ واللّٰہ سبحانہ أعلم بحقائق الأمور کلھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ کفر کے علاوہ بعض گناہوں کی سزا بھی عذابِ دوزخ آئی ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا﴾[النسآئ: ۹۳] [جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کرے پس اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا] نیز احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص قصداً ایک فرض نماز قضا کرے تو اس کو ایک حقبہ (۸۰ سال) دوزخ میں عذاب دیا جائے گا، لہٰذا دوزخ کا عذاب صرف کافروں کے لیے ہی مخصوص نہ رہا،