کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 435
کیونکہ جو چیز ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس چیز کی نسبت جو صفت سے تعلق رکھتی ہے، زیادہ قوی اور بلند ہے، لہٰذا مقتضاے صفت مققضاے ذات کی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ یہ جو حدیثِ قدسی میں آیا ہے: (( سَبَقَتْ رَحْمَتِيْ عَلٰی غَضَبِيْ )) [1] [میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی] تو اس غضب سے مراد غضبِ صفائی سمجھنا چاہیے جو گناہ گار مومنوں کے ساتھ مخصوص ہے نہ کہ غضبِ ذاتی جو مشرکوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ سوال: اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں کافروں کو رحمت سے حصہ حاصل ہے، جیسا کہ تو نے مندرجہ بالا عبارت میں تحقیق کی ہے تو پھر دنیا میں رحمت کی صفت نے ذاتی عداوت کو کیسے دور کر دیا؟ جواب: میں کہتا ہوں کہ دنیا میں خاص کافروں کو رحمت کا حاصل ہونا ظاہری طور پر اور صورت کے اعتبار سے ہے، لیکن حقیقت میں وہ ان کے حق میں استدراج اور کید ہے، ان کے حق میں آیتِ کریمہ: ﴿ اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ* نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لَّا یَشْعُرُوْنَ﴾[المؤمنون: ۵۵، ۵۶] [کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم مال اور بیٹوں میں سے جن چیزوں کے ساتھ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ہم انھیں بھلائیاں دینے میں جلدی کر رہے ہیں؟ بلکہ وہ نہیں سمجھتے] اور آیتِ کریمہ: ﴿ سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ* وَ اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ* اَوَ لَمْ یَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِھِمْ مِّنْ جِنَّۃٍ اِنْ ھُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ [الأعراف: ۱۸۲، ۱۸۳] [ہم ضرور انھیں آہستہ آہستہ کھینچ کر لے جائیں گے، جہاں سے وہ نہیں جانتے اور میں انھیں مہلت دوں گا، بے شک میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔ اور کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی میں جنون کی کون سی چیز ہے؟ وہ تو ایک کھلم کھلا ڈرانے والے کے سوا کچھ نہیں] ان ہی معنی پر شاہد ہیں۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۱۱۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۵۱)