کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 433
اس کے مانند دوسری چیزوں سے بے زاری کا اظہار کرنا ہے۔ عیاذاً باﷲ۔ اگر کوئی اس تصدیق کا بھی دعوی کرے اور کفر سے بیزاری کا اظہار نہ کرے تو وہ دو دینوں کا تصدیق کرنے والا بن جائے گا جو ارتداد کے داغ سے داغ دار ہو گا اور حقیقت میں اس کا حکم منافق کا حکم ہے: ﴿ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ وَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ﴾[النسآئ: ۱۴۳] [نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے] لہٰذا ایمان کی تحقیق میں کفر سے بیزاری کا اظہار کیے بغیر چارہ نہیں۔ تبرا کا ادنی درجہ دل سے بے زاری کرنا ہے اور تبرا کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دل اور جسم دونوں سے ہو۔ تبرا سے مراد حق جل و علا کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی رکھنا ہے۔ خواہ دشمنی قلب سے ہو جب کہ ان سے نقصان پہنچنے کا خوف ہو، خواہ دل اور جسم دونوں سے ہو، جبکہ ان سے ضرر کا خوف نہ ہو۔ آیتِ کریمہ: ﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ﴾[التوبۃ: ۷۳] [اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ] کیونکہ خداے عزوجل کی محبت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دشمنوں کی دشمنی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ اس جگہ یہ مصرع صادق آتا ہے: تولی بے تبری نیست ممکن [حُبِّ حق کے واسطے ہے غیر سے نفرت ضرور] شیعہ نے جو یہ قاعدہ اہلِ بیت کی محبت اور دوستی میں جاری کیا ہے اور تینوں خلفا رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم پر تبرا کرنا اہلِ بیت کی دوستی کی شرط قرار دیا ہے، نا مناسب ہے، کیونکہ دوستوں کی محبت کے لیے شرط ہے کہ ان کے دشمنوں سے تبرا کیا جائے، نہ کہ مطلق طور پر دشمنوں کے علاوہ دوسروں سے بھی ہو۔ کوئی عقل مند منصف اس بات کو تجویز نہیں کرتا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کے دشمن ہوں، حالانکہ ان اصحاب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے اموال اور جانوں کو صرف کر دیا اور اپنی عزت و حکومت کو برباد کر دیا تو اہلِ بیت سے ان کی دشمنی کس طرح منسوب کی جا سکتی ہے، جبکہ نصِ قطعی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کی محبت ثابت ہے اور دعوت کی اجرت کو ان کی محبت قرار دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَۃً