کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 430
جائے گی، جیسا کہ ابراہیم ۔علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام۔ پر ہو گئی تھی۔ وہ حق جل و علا کی وعید میں خلاف کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اہلِ دل (صوفیہ) میں سے کوئی بھی کفار کے دائمی عذاب کی طرف نہیں گیا ہے۔ اس مسئلے میں بھی وہ راہِ حق سے دور جا پڑے ہیں اور انھوں نے یہ نہیں جانا کہ مومنوں اور کافروں کے حق میں وسعتِ رحمت صرف اسی دنیا میں مخصوص ہے، لیکن آخرت میں کافروں کو رحمت کی بُو تک نہیں پہنچے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾[یوسف: ۸۷] [بے شک اللہ کی رحمت سے سوائے کافروں کے کوئی مایوس (نا امید) نہ ہو گا] جیسا کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ﴿ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ﴾کے بعد فرمایا: ﴿ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ [الأعراف: ۱۵۶] [پھر میں اپنی رحمت کو ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی ہیں اور زکات دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں] شیخ (ابنِ عربی) نے آیت کے اول حصے کو تو پڑھ لیا اور آخری حصے سے کوئی سروکار نہ رکھا۔ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾[الأعراف: ۵۶] [بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت محسنین کے قریب ہے] نیز آیتِ کریمہ: ﴿ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ﴾[إبراہیم: ۴۷] [پس ہر گز گمان نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا] بھی وعدہ خلافی کی خصوصیت پر دلالت نہیں کرتی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس جگہ وعدہ خلافی نہ ہونے کا اقتصار و انحصار اس وجہ سے ہو کہ وعدے سے مراد رسولوں کی نصرت اور کفار پر ان کا غلبہ ہے اور یہ بات وعدہ و وعید دونوں کو متضمن ہے، یعنی رسولوں کے لیے وعدہ ہے اور کفار کے لیے وعید، لہٰذا