کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد3) - صفحہ 429
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَفُتِحَتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ اَبْوَابًا﴾[النبأ: ۱۹] [اور آسمان کھل جائے گا اور اس میں دروازے ہو جائیں گے] اس قسم کی مثالیں قرآن مجید میں کثرت سے موجود ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ صرف کلمۂ شہادت زبان سے ادا کر لینا اسلام میں کافی نہیں ہے، بلکہ ان تمام چیزوں کی تصدیق بھی ضروری ہے جن کا بجا لانا دین کی ضروریات میں سے ہے اور کفر سے تبرا اور بے زار ہونا بھی ضروری ہے، تاکہ اسلام متصور ہو، وگرنہ یہ معاملہ بہت مشکل ہے۔ 16۔ حساب، میزان اور پل صراط حق ہے کہ مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خبر دی ہے۔ نبوت کے اطوار سے نا واقفیت کی بنا پر بعض جاہلوں کا ان امور کو بعید از عقل سمجھنا درجۂ اعتبار سے ساقط ہے، کیونکہ نبوت کے اطوار عقل کے اطوار سے بالاتر ہیں۔ حقیقت میں انبیاے کرام علیہم السلام کی سچی خبروں کو عقل کی نظر کے موافق کرنے کی کوشش کرنا طورِ نبوت سے انکار ہے، کیونکہ یہاں معاملہ صرف اتباعِ انبیا پر مبنی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ طورِ نبوت طورِ عقل کے مخالف ہے، بلکہ طورِ عقل انبیا ۔علیہم الصلوات والتسلیمات۔ کے اتباع کی تائید کے بغیر اس عالی مطلب کی طرف ہدایت حاصل نہیں کر سکتی۔ مخالفت دوسری چیز ہے اور رسائی نہ ہونا دوسری بات ہے، کیونکہ مخالفت رسائی کے بعد متصور ہوتی ہے۔ 17۔ بہشت و دوزخ موجود ہیں۔ قیامت کے دن حساب کے بعد ایک گروہ بہشت میں بھیجا جائے گا اور دوسرا گروہ دوزخ میں۔ مومنوں کے لیے ثواب اور کفار کے لیے عذاب دائمی و ابدی ہو گا جو کبھی ختم ہونے والا نہیں، جیسا کہ قطعی اور موکدہ نصوص اس امر پر دلالت کرتے ہیں۔ صاحبِ فصوص (محی الدین ابن عربی) کہتے ہیں کہ سب کا انجام رحمت ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ﴾[الأعراف: ۱۵۶] [اور میری رحمت سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے]۔ کفار کے لیے دوزخ کا عذاب تین حقبہ (ایک حقبہ اسی (۸۰) برس کی مدت) تک ثابت ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ ’’آگ ان کے حق میں ’’بَرْدًا وَّسَلَامًا‘‘ [ٹھنڈی اور سلامتی والی] ہو